Featured Post

بداية المتعلم: کلمے، دعائیں، وضو، غسل اور نماز

  Click here to read/download (PDF) بسم الله الرحمن الرحيم اسلام کے کلمے کلمۂ طیبہ لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُو ْ لُ ال...

Saturday, May 31, 2025

فضائل و اعمال عشرۂ ذی الحجہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحيم

فضائل و اعمال عشرۂ ذی الحجہ

Click here to read/download PDF

۱۔  بال اور ناخن نہیں کاٹنے کا حکم

حدیث: ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب ذی الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہو جائے (یعنی ذی الحجہ کا چاند دیکھ لیا جائے) اور تم میں سے کسی کا ارادہ قربانی کا ہو تو اس کو چاہیے کہ (اب قربانی کرنے تک) اپنے بال یا ناخن بالکل نہ تراشے ۔ (صحیح مسلم؛ حدیث نمبر ۱۹۷۷)

مسئلہ: جس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہے اس کے لیے مستحب ہے کہ ماہ ذی الحجہ کے آغاز سے جب تک قربانی ذبح نہ کرے جسم کے کسی عضو و جزو سے بال و ناخن صاف نہ کرے کہ قربانی کرنے والا اپنی جان کے فدیہ میں قربانی کر رہا ہے، اور قربانی کے جانور کا ہر جز و قربانی کرنے والے کے جسم کے ہر جزو کا بدلہ ہے، جسم کا کوئی جزو نزولِ رحمت کے وقت غائب ہو کر قربانی کی رحمت سے محروم نہ رہے اس لیے آنحضرت ﷺ نے مذکورہ حکم دیا ہے لیکن چالیس دن سے زائد مدت ہو جاتی ہو تو کراہت سے بچنے کی خاطر بال وغیرہ کی صفائی میں ڈھیل اور سستی نہ کرے۔ (فتاوی رحیمیہ ج ۵، ص ۴۰۷)

۲۔ کثرتِ عبادت یعنی نفل نماز، روزہ وغیرہ

حدیث:حضرت  عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ذی الحجہ کے دس دنوں کے مقابلے میں دوسرے کوئی ایام ایسے نہیں جن میں نیک عمل اللہ کو ان دنوں سے زیادہ محبوب ہوں۔ (سنن ترمذی حدیث نمبر 757)

۳۔ کثرتِ ذکر اللہ

حدیث: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک ذوالحجہ کے ان دس دنوں سے بڑھ کر کوئی دن محبوب نہیں لہٰذا ان دنوں میں بڑی مقدار میں تہلیل، تکبیر اور تحمید پڑھیں۔ (مسند احمد: ۵۴۴۶)

فائدہ: تہلیل: لا الہ الا اللہ؛ تکبیر: اللہ اکبر؛ تحمید: الحمد للہ کہنا ہے۔ خلاصہ یہ کہ تکبیر تشریق کثرت سے ہر موقعہ پر پڑھی جائے۔

اَللهُ اَكْبَرُ اَللهُ اَكْبَرُ لآ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَاللهُ اَكْبَرُ اَللهُ اَكْبَرُ وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ

حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ارشاد باری تعالیٰ:{وَ یَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ }’’ایام معلومات میں خدا تعالی کو خوب یاد کریں‘‘ ایام معلومات سے مراد ذو الحجہ کے پہلے دس دن ہیں، اور ایام معدودات سے مراد ایام تشریق ہیں۔

حضرت ابن عمرؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ ان دس دنوں میں بازار جاتے تو تکبیرات کہتے تھے، لوگ بھی ان کی تکبیرات کے ساتھ اللہ اکبر کہتے تھے اور حضرت محمد (باقر)  بن علی ؒ نفل نمازوں کے بعد بھی تکبیرات کہتے تھے۔   (صحیح البخاری: کتاب العیدین، باب فضل العمل فی ایام التشریق)

۴۔ یوم عرفہ یعنی ۹ ذی الحجہ کو روزہ رکھنا

حدیث: حضرت ابوقتادہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ عرفہ کے دن (9 ذی الحجہ) کا روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ مٹا دے گا۔ (سنن ترمذی:749)

مسئلہ: عرفہ کے دن کا روزہ مستحب ہے لیکن حاجی کے لیے روزہ نہ رکھنا بہتر ہے کہ افعال حج کی ادائگی میں کمزوری اور خلل واقع نہ ہو جائے۔ (مرقاۃ: ۲۰۴۲)

مسئلہ: روزہ دار کے شہر میں نویں ذی الحجہ جس دن پڑے اسی دن روزہ رکھا جائے گا، عرفات میں حاجیوں کے قیام کے دن کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ (کتاب النوازل، ج۶، ص۳۲۹)

۵۔ تکبیرات ایام تشریق

اَللهُ اَكْبَرُ اَللهُ اَكْبَرُ لآ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَاللهُ اَكْبَرُ اَللهُ اَكْبَرُ وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ

حضرت عمر ؓ مِنیٰ کے دنوں اپنے خیمے ہی میں تکبیر کہتے تھے جسے اہل مسجد سنتے اور وہ بھی تکبیر کہتے، بازار والے بھی اللہ اکبر کہتے تھے یہاں تک کہ مِنیٰ کی فضا اللہ اکبر کی صدا سے گونج اٹھتی۔ حضرت ابن عمرؓ بھی ان دنوں نمازوں کے بعد، اپنے بستر پر، اپنے خیمے میں اپنی مجلس میں اور راستے چلتےوقت، الغرض ان تمام دنوں میں تکبیرات کہتے تھے۔ ام المؤمنین حضرت میمونہؓ یوم نحر یعنی دسویں ذی الحجہ کو تکبیر کہتی تھیں، دوسری خواتین بھی تشریق کی راتوں میں حضرت ابان بن عثمانؓ اور حضرت عمر بن  عبد العزیزؒ کے پیچھے مردوں کے ساتھ مسجد میں تکبیرات کہتی تھیں۔ (صحیح البخاری: کتاب العیدین، باب التکبیر ایام منی واذا غدا الی عرفہ)

مسئلہ:  9 ؍ذی الحجہ کی فجر سے تکبیر تشریق ہر اس مسلمان پر واجب ہے جس پر پنج و قتہ نماز فرض ہے خواہ مرد ہو یا عورت مقیم ہو یا مسافر۔ مرد بآواز بلند پڑھیں عورتیں آہستہ۔ یہ تکبیرات 13 ؍ذی الحجہ کی عصر تک پڑھی جائیں صرف ایک بار پڑھنا واجب ہے۔ (الدر المختار، ج۳، ص۶۴)

۶۔ قربانی

حدیث: حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص کو (قربانی کی) وسعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے، تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ پھٹکے ۔ (سنن ابن ماجہ: 3123)

حدیث: ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قربانی کے دن اللہ کے نزدیک آدمی کا سب سے محبوب عمل خون بہانا (قربانی کرنا) ہے، قیامت کے دن قربانی کے جانور اپنی سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئیں گے قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے قبولیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے، اس لیے خوش دلی کے ساتھ قربانی کرو ۔ (سنن ترمذی: ۱۴۹۳)

۷۔ ماہ ذی الحجہ اور یوم النحر یعنی دس ذی الحجہ کی فضیلت

حدیث: نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ زمانہ پھر کر اسی حالت پر آگیا ہے جس حالت پر اس دن تھا جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین پیدا کئے تھے۔ سال بارہ مہینہ کا ہوتا ہے ان میں چار حرمت کے مہینے ہیں، تین پے در پے ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم اور ایک مضر کا رجب جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان میں پڑتا ہے۔ (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا) یہ کون سا مہینہ ہے، ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ ﷺ خاموش ہوگئے۔ ہم نے سمجھا کہ شاید نبی کریم ﷺ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کیا یہ ذی الحجہ نہیں ہے ؟ ہم نے عرض کیا ذی الحجہ ہی ہے۔ پھر فرمایا یہ کون سا شہر ہے ؟ ہم نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کو اس کا زیادہ علم ہے۔ پھر نبی کریم ﷺ خاموش ہوگئے اور ہم نے سمجھا کہ شاید آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کیا یہ بلدہ (مکہ مکرمہ) نہیں ہے ؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں۔ پھر آپ ﷺ نے دریافت فرمایا یہ دن کون سا ہے ؟ ہم نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول کو اس کا بہتر علم ہے۔ نبی کریم ﷺ خاموش ہوگئے اور ہم نے سمجھا کہ آپ اس کا کوئی اور نام تجویز کریں گے لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کیا یہ قربانی کا دن (یوم النحر) نہیں ہے ؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں ! پھر آپ ﷺ نے فرمایا پس تمہارا خون، تمہارے أموال اور تمہاری عزت تم پر (ایک کی دوسرے پر) اس طرح باحرمت ہیں جس طرح اس دن کی حرمت تمہارے اس شہر میں اور اس مہینہ میں ہے اور عنقریب اپنے رب سے ملو گے اس وقت وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں سوال کرے گا آ گاہ ہوجاؤ میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا کہ تم میں سے بعض بعض دوسرے کی گردن مارنے لگے۔ ہاں جو یہاں موجود ہیں وہ (میرا یہ پیغام) غیر موجود لوگوں کو پہنچا دیں۔ ممکن ہے کہ بعض وہ جنہیں یہ پیغام پہنچایا جائے بعض ان سے زیادہ اسے محفوظ کرنے والے ہوں جو اسے سن رہے ہیں۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ آگاہ ہوجاؤ کیا میں نے (اس کا پیغام تم کو) پہنچا دیا ہے۔ آگاہ ہوجاؤ کیا میں نے پہنچا دیا ہے ؟ (صحیح البخاری: ۵۵۵۰)

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على رسوله الكريم وعلى آله وأصحابه أجمعين

شمس تبریز

خادم الافتاء، محکمہ شرعیہ، بمبئی ۴

 ۲؍ذو الحجہ ۱۴۴۶ھ م ۳۰؍مئی ۲۰۲۵ء


No comments:

Post a Comment