Featured Post

بداية المتعلم: کلمے، دعائیں، وضو، غسل اور نماز

  Click here to read/download (PDF) بسم الله الرحمن الرحيم اسلام کے کلمے کلمۂ طیبہ لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُو ْ لُ ال...

Friday, September 29, 2023

رسول کریم ﷺ

نبی ﷺ کی ذات گرامی اور سیرت طیبہ سے متعلق اکابر علمائے کرام کی تحریرات سے منتخب مختصر مضامین 

Click here to read/Download(PDF)

سیرت سید وُلدِ آدم نبی کریم حضرت محمد ﷺ

ولادتِ مبارکہ

آپ ؐ شہر مکہ میں سردارِ قریش حضرت عبد المطلب کے گھر میں پیدا ہوئے، آپ ؐ کے والد ماجد کا نام نامی عبد اللہ اور والدۂ محترمہ کا اسم گرامی آمنہ تھا۔ آپ کی ولادت سراپا بشارت ربیع الاول کے مہینہ میں دو شنبہ کے دن صبح صادق کے وقت آٹھویں یا بارھویں تاریخ کو ہوئی، انگریزی تاریخ ۲۰؍ اپریل ۵۷۱ء بیان کی گئی ہے، اس وقت ایران میں نوشیروانِ عادل کی حکومت تھی۔

  عجائبات کا ظہور

آپ ؐ کی ولادتِ بابرکت کے وقت بہت سے عجائبات قدرت کا ایسا ظہور ہوا کہ کبھی دنیا میں وہ باتیں نہیں ہوئیں، بے زبان جانوروں   نے انسانی زبان میں آپ ؐ کے تشریف لانے کی خوشخبری سنائی، درختوں سے آوازیں آئیں، بُت پرستوں نے بتوں سے آپ کی آمد کی خوش خبری سنی، دنیا کے دو بڑے بادشاہوں یعنی شاہ فارس اور شاہ روم کو بذریعہ خواب آپ ؐ کی عظمت ورفعت سے آگاہی دی گئی اور یہ بھی ان کو بتایا گیا کہ آپ ؐ کی سطوت وجبروت کے سامنے نہ صرف کسریٰ اور قیصر بلکہ ساری دنیا کی شوکتیں سرنگوں ہو جائیں گی۔ آپ ؐ شکم مادر ہی میں تھے کہ آپ ؐ کے والد ماجد کا انتقال ہو گیا اور چار برس کی عمر میں مادرِ مہربان کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ کسی سے آپ ؐ نے پڑھنا لکھنا کچھ نہیں سیکھا، نہ کسی سے کوئی چیز یا کوئی کمال حاصل کیا حتی کہ شعر و سخن جس کا عرب میں بہت رواج تھا اس کی بھی مشق آپ نے کسی سے نہیں کی۔

نگارِ من کہ بہ مکتب نہ رفت وخط نہ نوشت       بہ غمزہ مسألہ آموز صد مدرّس شد

رضاعت

آپ ؐ کو دودھ پلانے کا شرف حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کو ملا اور انہوں نے آپ ؐ کے عجیب وغریب حالات مشاہدہ کئے، آپ ؐ کی کم سنی کے حالات و کمالات کا ایک بڑا حصہ ان سے منقول ہے۔ حق یہ ہے کہ حضرت حلیمہ ؓ بڑی خوش نصیب بی بی تھیں، ان کو خدا نے زمانۂ نبوت تک زندہ رکھا تھا اور وہ آپ ؐ پر ایمان لائیں اور مقام جِعرَانہ میں جبکہ آپ ؐ مالِ غنیمت تقسیم کر رہے تھے وہاں آپ ؐ سے آکر ملی تھیں، آپ ؐ نے ان کی بہت خاطر مدارات کی تھی اور حُنَین کے چھ ہزار اسیرانِ جنگ محض اس وجہ سے آزاد کر دیئے گئے تھے کہ وہ حضرت حلیمہ ؓ کے قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔

شقِ صدر

شقِ صدر آپ ؐ کا چار مرتبہ ہوا، دو مرتبہ قبل نبوت، ایک مرتبہ بوقتِ بعثت اور ایک مرتبہ بوقتِ معراج۔ پہلی مرتبہ جب شق صدر ہوا تو آپ ؐ اس وقت حضرت حلیمہ ؓ کے یہاں تھے اور اپنے رضاعی بھائی کے ساتھ بکریاں چرانے جنگل گئے ہوئے تھے، یکا یک وہ خوف زدہ ہو کر دوڑتے ہوئے حضرت حلیمہ ؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اے اماں ! میرے قریشی بھائی کو دو سفید مردوں نے آکر زمین پر لٹا یا اور ان کا سینہ چاک کر دیا، یہ سن کر وہ بہت پریشان ہوئیں اور فورا جنگل گئیں، دیکھا تو آپ ؐ صحیح و سالم ہیں مگر چہرۂ مبارک پر خوف کے آثار ہیں اور پھر سارا واقعہ خود آپ ؐ ہی نے بیان کیا۔ ہر مرتبہ شق صدر میں فرشتے آپ کا سینہ ٔ مبارک چاک کرکے اور آپ ؐ کے قلب ِ اطہر کو ایک طشت میں رکھ کر جس میں زم زم کا پانی ہوتا تھا دھوتے تھے۔ بت پرستی اور بے حیائی کے کاموں سے آپ ہمیشہ پرہیز کرتے تھے، آپ کی صداقت و امانت قبل ِ نبوت بھی تمام مکہ میں مشہور اور مسلّم الکل تھی حتی کہ آپ کا لقب ’’صادق‘‘ اور ’’امین‘‘ زباں زدِ خلائق تھا۔

نکاح

جب آپ کی عمر گرامی پچیس سال کی ہوئی تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ آپ کا نکاح ہوا جو خاندانِ قریش میں ایک بڑی دانشمند اور دولت مند خاتون تھیں اور آپ ؐ کے اوصاف و کمالات سن کر یہ اندازہ کر چکی تھیں کہ جس نبی موعود کی پیشین گوئیاں علماء یہود و نصاری بیان کرتے ہیں کیا عجب ہے کہ وہ آپ ؐ ہی ہوں، حضرت خدیجہ ؓ کی عمر بوقت نکاح چالیس سال کی تھی، آپ ؐ کی سب اولادیں انہیں کے بطن سے ہوئیں سوائے حضرت ابراہیم کے کہ وہ حضرت ماریہؓ کے بطن سے تھے۔

نبوت

جب عمر شریف چالیس سال کی ہوئی تو دو شنبہ کے دن ۱۷؍ رمضان کو اور ایک قول کے مطابق ۲۴؍ رمضان کو جبکہ خسرو پرویز بادشاہ ایران کے جلوس کا بیسواں سال تھا وہ دولت عظمیٰ آپ ؐ کو عطا ہوئی جو روز ازل سے آپ کے لئے نامزد ہو چکی تھی جس کی دعاء حضرت خلیلؑ نے مانگی اور جس کی بشارت حضرت مسیح  ؑ نے دی یعنی حق تعالیٰ نے آپ کو اپنا رسول بنایا اور سارے عالم کی طرف مبعوث کیا۔ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علی آلہ وصحبہ و بارک و سلم

تبلیغ اسلام

اس کے بعد کامل تیئیس (۲۳) سال تک آپ ؐ نے بڑی شفقت ، بڑی رافت، بڑی جانفشانی اور بڑی جفاکشی کے ساتھ فرائض رسالت کو ادا فرمایا اور بڑی بڑی اذیتیں برداشت کیں۔ اس وقت دنیا میں ہر طرف ابلیس کی حکومت تھی، کفر و شرک اور ہر قسم کے مظالم سے زمین تاریک ہو رہی تھی، عیسائی، یہودی اور مجوسی سب ایک حالت میں تھے، عرب و عجم سب کی ایک کیفیت تھی، فواحش و معاصی کو کوئی عیب نہ سمجھتا تھا، چوری اور رہزنی کو لوگوں نے پیشہ بنا لیا تھا، اپنی اولاد کو اپنے ہاتھ سے قتل کر دینا کوئی بڑی بات نہ تھی۔

ان حالات میں اِس ہادئ بر حق ﷺ نے یکا یک دنیا کی کا یا پلٹ دی اور بجائے کفر و شرک کے ایمان کی روشنی سے زمین کو جگمگا دیا اور تھوڑے دنوں میں ہی آپ ؐ کی تعلیم نے خدا پرستوں کی ایک بڑی جماعت تیار کر دی جو اپنے اعلیٰ ترین اخلاق اور کامل ترین زہد و تقوی میں اس مرتبہ پر تھے کہ تاریخ عالم ان کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہے۔

ہجرت

نبوت کے بعد تیرہ برس آپ ؐ کا قیام مکہ معظمہ میں رہا، پھر ہجرت کر کے آپ ؐ مدینہ منورہ تشریف لائے۔ دس برس مدینہ میں قیام رہا، اس دس سال میں انیس (۱۹) لڑائیاں بھی آپؐ کو کافروں سے لڑنی پڑیں۔

بکثرت معجزات و خوارق عادات کا آپ ؐ سے ظہور ہوا۔ سب سے بڑا معجزہ آپؐ کا قرآن شریف ہے جس میں فصاحت و بلاغت کا اِعجاز، اَخبار غیب کا اظہار، قوتِ تاثیر اور سرعتِ تاثیر کی خصوصیت بھی ہے۔

معراج

نبوت کے بارہویں سال جبکہ عمر شریف اکیاون سال نو ماہ کی تھی حق تعالیٰ نے آپؐ کو معراج عطا فرمائی، یعنی آپ ؐ آسمانوں پر بلائے گئے، جنت و دوزخ کی سیر آپؐ کو کرائی گئی اور عالم ملکوت کے عجائبات اور اللہ تعالیٰ کی آیاتِ کبریٰ کا مشاہدہ آپ کو کرایا گیا۔

خواجہ دراں پردہ بدید آنچہ دید       وآنچہ نیاید بزباں ہم شنید

اخلاق و عادات

آپ ؐ کے اخلاقِ کریمانہ کی کیفیت یہ تھی کہ آپ ؐ کے اصحاب میں ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ سب سے زیادہ لطف و کرم میرے اوپر ہے۔ ہمیشہ غرباء و مساکین کی طرف آپ ؐ کی توجہ زیادہ ہوتی تھی، یتیموں اور بیواؤں کا بڑا خیال کرتے تھے، اگر کوئی آپ ؐ کے اصحاب میں بیمار ہوتا تو اس کی عیادت کو تشریف لے جاتے، جنازوں کے ساتھ جاتے اور نماز پڑھ کر دفن کر کے واپس آتے، کسی کی آخری حالت سنتے تو اس کے پاس جاکر بیٹھ جاتے، روئے انور اس کی آنکھوں کے سامنے ہوتا، ایسے مرنے والوں کی خوش قسمتی کا کیا کہنا؟!

بچہ ناز رفتہ باشد زجہاں نیاز مندے               کہ بوقتِ جان سپردن بسرش رسیدہ باشی

دنیا کا عیش وآرام کبھی آپ ؐ نے نہیں اٹھایا۔ موٹے کپڑے پہنتے تھے اور اکثر آپ ؐ کے گھر میں فاقہ ہو جاتا تھا، کبھی ایسا نہ ہوا کہ دو دن متواتر دونوں وقت آپ ؐ نے کھایا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے حُسنِ صورت بھی آپ کو ایسا عطا فرمایا تھا کہ آپ کا چہرۂ مبارک چودھویں رات سے زیادہ چمکتا تھا، جس راستہ سے آپؐ گزر جاتے دیر تک اس راستہ میں خوشبو آیا کرتی تھی۔ صحابہ کرامؓ اس خوشبو سے پہچان لیتے تھے کہ آپ ؐ ادھر سے گزرے ہیں۔

وفات

جب آپؐ کی عمر شریف ترسٹھ (۶۳) برس کی ہوئی اور ہجرت کا گیارہواں سال شروع ہوا تو بارہویں[1] ربیع الاول کو دو شنبہ کے دن، بوقتِ چاشت، چودہ دن بیمار رہ کر اس عالم سے رحلت فرمائی اور رفیقِ اعلی جل مجدہٗ کے جوار عزت میں سکونت اختیار کی۔

انا لله وإنا إليه راجعون

آخری وصیت جو آپ ؐ نے مسلمانوں سے فرمائی وہ یہ تھی کہ نماز کی حفاظت کرنا اور اپنے لونڈی غلاموں کے ساتھ نیک سلوک کرنا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں جس جگہ آپ ؐ کی وفات ہوئی تھی وہیں آپ کی قبر شریف بنائی گئی جو زیار ت گاہِ عالم ہے۔

صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله وأصحابه أجمعين

[سیرت خلفائے راشدینؓ از حضرت مولانا عبد الشکور فاروقی لکھنویؒ؛ ط: الامین کتابستان، دیوبند]


مشہور غزوات[2] کے متعلق اجمالی نقشہ

نمبر شمار

غزوہ کا نام

تاریخ

کوئی خاص بات

۱

غزوہ بد کبریٰ یعنی بدر کی بڑی لڑائی

۱۷؍ رمضان سنہ۲ھ

کفار کے سردار مارے گئے جن میں ابو جہل بھی تھا، اِس لیے اس شکست پر ان کو بہت صدمہ ہوا اور آئندہ بدلہ لینے کے لیے فورا تیاریاں شروع کر دیں  اِس فتح کے خبر مدینہ میں اُس وقت پہنچی کہ صاحبزادیٔ حضورؐ زوجۂ عثمانؓ حضرت رُقیہؓ کو دفن کر کے لوگ مٹی سے ہاتھ جھاڑ رہے تھے۔

۲

غزوہ بنو قینقاع

شوال سنہ ۲ھ

یہودِ مدینہ کے قبیلہ بنو قینقاع سے جنگ۔ یہ لوگ عموماً تجارت پیشہ یا سنار تھے۔

۳

غزوہ اُحُد

۶؍ شوال سنہ ۳ھ

حضورؐ کے دندان مبارک کی شہادت، حضرت حمزہؓ  کی شہادت۔

۴

غزوہ بنو نضیر

ربیع الاول سنہ ۴ھ

یہودِ مدینہ کے قبیلہ بنو نضیر سے جنگ۔ ان کی زمین ضبط کر لی گئی، ہتھیار لے لیے گئے۔

۵

غزوہ خندق یا غزوہ احزاب

شوال یا ذوالقعدہ سنہ ۵ھ

تمام مشرکین عرب اور یہودیوں سے مقابلہ۔ حضرت سلمان فارسیؓ کی رائے کے بموجب مدینہ کے گرد خندق کھودی گئی۔

۶

غزوہ بنو قُریظہ

ذو الحجہ سنہ ۵ھ

مدینہ کا آخری یہودی قبیلہ بنو قُرَیظہ سے جنگ۔

۷

صلح حُدیبیہ

ذو القعدہ سنہ ۶ھ

کفار مکہ کے ساتھ صلح وغیرہ کی گفت و شنید ہوئی۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کی خبر مشہور ہو جانے کی وجہ سے بیعت رضوان کا مشہور واقعہ بھی پیش آیا۔

۸

غزوہ خیبر

محرم سنہ ۷ھ

یہودِ خیبر سے جنگ۔ حضرت علیؓ نے خیبر کے اُس پھاٹک کو تنہا اکھاڑ پھینکا جو ۷۰ آدمیوں سے بھی نہ اٹھتا تھا۔

۹

غزوہ مُوتَہ

جُمادی الاولیٰ سنہ ۸ھ

غسَّانی  عسائیوں سے جنگ۔اسلامی لشکر کے سردار حضرت زید بن حارثہؓ تھے۔ اس دستہ کے تین عَلَم برداروں کا نام حضورؐ نے تجویز فرما دیا تھا، وہ تینوں شہید ہو گئے تو پھر جھنڈا خالد بن ولیدؓ نے سنبھالا۔

۱۰

فتح مکہ

رمضان سنہ ۸ھ

آنحضرت ؐ نے تمام مکہ والوں کو جو عمر بھر کے گردن زدنی مجرم تھے معاف کر دیا اور اعلان کر دیا کہ جو کچھ ہوا تھا وہ سب فراموش۔

۱۱

غزوہ حُنَین

شوال سنہ ۸ھ

قبیلہ ہوازن اور ثقیف وغیرہ سے جنگ۔ مقابلہ کے لیے اِس قدر آمادہ ہو کر آئے تھے کہ عورتوں، بچوں اور تمام مال کو ساتھ لائے تھے جو اہلِ اسلام کے قبضے میں آیا۔

۱۲

غزوہ طائف

شوال سنہ ۸ھ

قبیلہ ثقیف وغیرہ سے جنگ۔ مَنجَنِیق کا استعمال کیا گیا جو گویا اُس زمانہ کی توپ تھی۔

۱۳

غزوہ تَبوک

رجب سنہ ۹ھ

ہِرَقل قیصر روم سے جنگ۔ جنگ نہیں ہوئی۔ مقابل کی فوج واپس ہو گئی تھی، مگر رعب خوب پڑ گیا۔ مسلمانوں پر بہت تنگ دستی تھی اس وجہ سے اس کو غزوۂ عُسرہ بھی کہتے ہیں، چندہ سے سامانِ جنگ جمع کیا گیا، مسلمانوں نے بے نظیر جوش کا اظہار کیا۔

[ماخوذ از ’’تاریخ الاسلام‘‘ حصہ دوم، مصنفہ مولانا محمد میاں دیوبندیؒ؛ ط: الامین کتابستان دیوبند]


خانۂ نبوت

۱۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا:  ہجرت سے قبل مکہ میں نبی ﷺ کا گھرانہ آپ اور آپ کی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر مشتمل تھا۔ شادی کے وقت آپؐ کی عمر پچیس سال تھی اور حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیس سال۔ حضرت خدیجہ آپ کی پہلی بیوی تھیں۔ اور ان کے جیتے جی آپ نے کوئی اور شادی نہیں کی۔ آپ کی اولاد میں حضرت ابراہیم ؓکے ماسوا تمام صاحبزادے اور صاحبزادیاں ان ہی حضرت خدیجہ کے بطن سے تھیں۔ صاحبزادگان میں سے گو کوئی زندہ نہ بچا البتہ صاحبزادیاں حیات رہیں۔ ان کے نام یہ ہیں: زینبؓ، رُقَیّہ ؓ، اُمِ کلثوم ؓ اور فاطمہؓ۔ زینبؓ کی شادی ہجرت سے پہلے ان کے پھوپھی زاد بھائی حضرت ابو العاص بن ربیع ؓ سے ہوئی۔ رُقَیّہ ؓ اور اُمِ کلثوم ؓ کی شادی یکے بعد دیگرے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ حضرت فاطمہ کی شادی جنگ بدر اور جنگ احد کے درمیانی عرصہ میں حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے ہوئی اور ان کے بطن سے حسنؓ، حسینؓ، زینبؓ  اور اُم کلثوم ؓ پیدا ہوئیں۔

۲۔ حضرت سَودَہ بنت زَمعہ رضی اللہ عنہا: ان سے رسول اللہ ﷺ نے حضرت خدیجہؓ کی وفات کے چند دن بعد نبوت کے دسویں سال ماہ شوال میں شادی کی۔ آپ سے پہلے حضرت سودہؓ اپنے چچیرے بھائی سکران بن عَمرو کے عقد میں تھیں۔ اور وہ انہیں بیوہ چھوڑ کر انتقال کر چکے تھے۔

۳۔ حضرت عائشہ صدیقہ بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما: ان سے رسول اللہ ﷺ نے نبوت کے گیارھویں برس ماہ شوال میں شادی کی یعنی حضرت سودہؓ سے شادی کے ایک سال بعد اور ہجرت سے دو برس پانچ ماہ پہلے۔ اس وقت ان کی عمر چھ برس تھی پھر ہجرت کے سات ماہ بعد شوال  سنہ ۱ھ میں انہیں رخصت کیا گیا۔ اس وقت ان کی عمر نو برس تھی اور وہ باکرہ [3]تھیں۔ ان کے علاوہ کسی اور باکرہ عورت سے آپ نے شادی نہیں کی۔ حضرت عائشہ ؓ آپ کی سب سے محبوب بیوی تھیں۔ اور اُمت کی عورتوں میں علی الاطلاق سب سے زیادہ فقیہ اور صاحب علم تھیں۔

۴۔ حضرت حفصہ بنت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما: ان کے پہلے شوہر خنیس بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ تھے جو بدر اور احد کے درمیانی عرصہ میں رحلت کر گئے اور وہ بیوہ ہو گئیں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ان سے شادی کر لی شادی کا یہ واقعہ سنہ ۳ھ کا ہے۔

۵۔ حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا: یہ قبیلہ بنو ہلال بن عامر بن صَعصَعَہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ مسکینوں پر رحم و مروت اور رِقّت و رأفت کے سبب ان کا لقب اُم المساکین پڑ گیا تھا۔ یہ حضرت عبد اللہ بن جحش ؓکے عقد میں تھیں۔ وہ جنگِ اُحد میں شہید ہو گئے تو رسول اللہ ﷺ نے سنہ ۴ ھ میں ان سے شادی کر لی۔ مگر صرف آٹھ ماہ رسول اللہ ﷺ کی زوجیت میں رہ کر وفات پا گئیں۔

۶۔ حضرت اُمِّ سَلَمہ ہند بنت ابی امیہ رضی اللہ عنہا: یہ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے عقد میں تھیں۔ جماد الآخرہ سنہ ۴ھ میں حضرت ابو سلمہ کا انتقال ہو گیا تو ان کے بعد شوال سنہ ۴ھ میں رسول اللہ ﷺ نے ان سے شادی کر لی۔

۷۔ حضرت زینب بنت جَحش بن ریاب رضی اللہ عنہا: یہ قبیلہ بنو اسد بن خزیمہ سے تعلق رکھتی تھیں اور رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی کی صاحبزادی تھیں۔ ان کی شادی پہلے حضرت زید بن حارثہؓ سے ہوئی تھی جنہیں رسول اللہ ﷺ کا بیٹا سمجھا جاتا تھا لیکن حضرت زید سے نباہ نہ ہو سکا اور انہوں نے طلاق دیدی۔ خاتمۂ عدت کے بعد اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی ﵟفَلَمَّا قَضَىٰ ‌زَيۡدٞ مِّنۡهَا وَطَرٗا زَوَّجۡنَٰكَهَاﵞ  ’’جب زید نے ان سے اپنی ضروت پوری کر لی تو ہم نے انہیں آپ کی زوجیت میں دے دیا۔‘‘

              انہیں کے تعلق سے سورہ احزاب کی مزید کئی آیات نازل ہوئیں جس میں متبنی (لے پالک) کے قضیے کا دو ٹوک فیصلہ کر دیا گیا۔ حضرت زینب سے رسول اللہ ﷺ کی شادی ذی قعدہ سنہ ۵ھ میں یا اس سے کچھ عرصہ پہلے ہوئی۔

۸۔ جُوَیریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا: ان کے والد قبیلہ خزاعہ کی شاخ بنو المُصطلِق کے سردار تھے۔ حضرت جویریہ بنو المُصطلِق کے قیدیوں میں لائی گئی تھیں اور حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کے حصے میں پڑی تھیں۔ انہوں نے حضرت جویریہ سے مکاتبت کر لی یعنی ایک مقررہ رقم کے عوض آزاد کر دینے کا معاملہ طے کر لیا۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان کی طرف سے مقررہ رقم ادا فرمادی اور ان سے شادی کر لی۔ یہ شعبان سنہ ۵ھ یا سنہ ۶ھ کا واقعہ ہے۔

۹۔ اُمِّ حبیبہ رملہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہما: یہ عبید اللہ بن جحش کے عقد میں تھیں۔ اور اس کے ساتھ ہجرت کر کے حبشہ بھی گئی تھیں لیکن عبید اللہ نے وہاں جانے کے بعد مرتد ہو کر عیسائی مذہب قبول کر لیا اور پھر وہیں انتقال کر گیا لیکن اُمِّ حبیبہ اپنے دین اور اپنی ہجرت پر قائم رہیں۔ جب رسول اللہ ﷺ نے محرم سنہ ۷ھ میں عَمرو بن اُمیہ ضمری کو اپنا خط دے کر نجاشی کے پاس بھیجا تو نجاشی کو یہ پیغام بھی دیا کہ اُم حبیبہ سے آپ کا نکاح کر دے۔ اس نے اُم حبیبہ کی منظوری کے بعد ان سے آپؐ کا نکاح کر دیا اور شُرحبِیل بن حَسَنَہ کے ساتھ اُنہیں آپؐ کی خدمت میں بھیج دیا۔

۱۰۔ حضرت صفیہ بنت حُیی بن اَخطَب رضی اللہ عنہا: یہ بنی اسرائیل سے تھیں اور خبیر میں قید کی گئیں۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے انہیں اپنے لیے منتخب فرما لیا اور آزاد کر کے شادی کر لی۔ یہ فتح خیبر سنہ ۷ھ کے بعد کا واقعہ ہے۔

۱۱۔ حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا: یہ ام الفضل لُبابہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کی بہن تھیں۔ ان سے رسول اللہ ﷺ نے ذی قعدہ سنہ ۷ھ میں عمرۂ قضاء سے فارغ ہونے کے بعد شادی کی۔

              یہ گیارہ بیویاں ہوئیں جو رسول اللہ ﷺ کے عقد نکاح میں آئیں اور آپ کی صحبت و رفاقت میں رہیں۔ ان میں سے دو بیویاں یعنی حضرت خدیجہ اور حضرت زینب ام المساکین کی وفات آپ کی زندگی ہی میں ہوئی اور نو بیویاں آپ کی وفات کے بعد حیات رہیں۔

              جہاں تک لونڈیوں[4] کا معاملہ ہے تو مشہور یہ ہے کہ آپؐ نے دو لونڈیوں کو اپنے پاس رکھا: ایک ماریہ قبطیہؓ کو جنہیں مقوقس فرمانروائے مصر نے بطور ہدیہ بھیجا تھا ان کے بطن سے آپ کے صاحبزادے ابراہیمؓ پیدا ہوئے۔ جو بچپن ہی میں ۲۸؍ یا ۲۹؍ شوال سنہ ۱۰ھ مطابق ۲۷؍ جنوری سنہ ۶۳۲ء کو مدینہ کے اندر انتقال کر گئے۔

              دوسری لونڈی ریحانہ بنت زیدؓ تھیں جو یہود کے قبیلہ بنی نضیر یا بنی قُریظہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہ بنو قریظہ کے قیدیوں میں تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اپنے لیے منتخب فرمایا تھا۔ اور وہ آپ کے زیر دست تھیں۔ ان کے بارے میں بعض محققین کا خیال ہے کہ انہیں نبی ﷺ نے بحیثیت لونڈی نہیں رکھا تھا بلکہ آزاد کر کے شادی کر لی تھی، لیکن ابن قیم کی نظر میں پہلا قول راجح ہے۔


[الرحیق المختوم از مولانا صفی الرحمن مبارکپوریؒ،ص ۷۳۹؛ ط: المجلس العلمی علی گڑھ]

اولادِ کرام

آن حضرت ﷺ کی اولاد کے بارے میں اقوال مختلف ہیں سب سے زیادہ معتبر اور مستند قول یہ ہے کہ تین صاحبزادے اور چار صاحب زادیاں تھیں۔

              قاسمؓ، عبداللہؓ جن کو طیب اور طاہر کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ ابراہیمؓ، زینبؓ، رُقیہؓ، اُم کُلثومؓ، فاطمہ الزہرہؓ صاحبزادیوں کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں بالاتفاق چار تھیں چاروں بڑی ہوئیں، بیاہی گئیں، اسلام لائیں، ہجرت کی۔ حضرت ابراہیمؓ کے بارے میں بھی کوئی اختلاف نہیں یہ بالاتفاق آپکی اُم ولد[5] ماریہ قبطیہؓ کے بطن سے تھے اور بچپن ہی میں انتقال کر گئے۔ حضرت ابراہیم کے سوا تمام اولاد حضرت خدیجہؓ ہی کے بطن سے ہے اور کسی بیوی سے آپ کو کوئی اولاد نہیں ہوئی۔


[’’سیرۃ المصطفےٰ ‘‘ مصنفہ مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ، ج۳، ص۳۶۳؛ ط: ادارہ علم و حکمت دیوبند]


حُلیۂ مبارکؐ

 آن حضرت ﷺ نہ زیادہ لمبے تھے اور نہ پَست قد۔ میانہ قد تھے۔ سر بڑا تھا۔ ریش مبارک گھنی تھی آپ کے سرِ مبارک اور ریش مبارک میں گنتی کے تقریبا بیس پچیس بال سفید تھے۔ چہرۂ انور نہایت خوبصورت اور نورانی تھا۔ جس نے بھی آپ کا چہرۂ انور دیکھا ہے اس نے حضور کے چہرۂ انور کو چودھویں رات کے چاند کی طرح منور بیان کیا ہے۔

آپ کے پسینہ میں ایک خاص قسم کی خوشبو تھی چہرۂ انور سے جب پسینہ ٹپکتا تو موتیوں کی طرح معلوم ہوتا۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے دیباج[6] اور حریر[7] کو آپ کے جلد سے زیادہ نرم نہیں دیکھ۔ اور مشک وعنبر میں آپ کے بدن معطر سے  زیادہ خوشبو نہ سونگھی۔


[’’سیرۃ المصطفےٰ ‘‘ مصنفہ مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ، ج۳، ص۳۷۲؛ ط: ادارہ علم و حکمت دیوبند]

مُہرِ نُبوت

دونوں شانوں کے درمیان میں دائیں شانہ کے قریب مہر نبوت تھی صحیح مسلم میں ہے کہ حضور پُر نور کی دو شانوں کے درمیان میں ایک سُرخ گوشت کا ٹکڑا کبوتر کے انڈے کے مانند تھا۔

یہ مہر نبوت آن حضرت ﷺ کی نبوت کی خاص نشانی تھی جس کا ذکر کُتبِ سابقہ اور انبیاء سابقین کی بشارتوں میں تھا علماء بنی اسرائیل اسی علامت کو دیکھ کر پہچان لیتے تھے، کہ حضور پر نور وہی نبی آخر الزماں ہیں کہ جن کی انبیاء سابقین نے بشارت دی ہے اور جو علامت (مہر نبوت) بتلائی تھی وہ آپ میں موجود ہے گویا یہ مہر نبوت آپ کی نبوت کے لئے من جانب اللہ خدا تعالی کی مہر اور سند تھی۔

[’’سیرۃ المصطفےٰ ‘‘ مصنفہ مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ، ج۳، ص۳۷۲؛ ط: ادارہ علم و حکمت دیوبند]


لباسِ نَبَوی ﷺ

              آن حضرت ﷺ کا لباس نہایت سادہ اور معمولی ہوتا تھا۔ فقیرانہ اور درویشانہ زندگی تھی عام لباس آپ کا تہمد اور چادر اور کرتہ اور جبّہ اور کمبل تھا جس میں پیوبند لگا ہوتا تھا۔

              آپ کو سبز لباس پسند تھا۔ آپ کی پوشاک عموما سفید ہوتی تھی۔

           چادر: یمنی چادر جس پر سبز اور سُرخ خطوط ہوں۔ آپ کو بہت مرغوب تھی جو بُرد یمانی کے نام سے مشہور تھی خالص سرخ سے منع فرماتے۔

              ٹوپی: سر سے چمٹی ہوئی ہوتی تھی اونچی ٹوپی کبھی استعمال نہیں فرمائی ابو کبثہ اغاری سے مروی ہے کہ صحابۂ کرام کی ٹوپیاں چپٹی سر سے لگی ہوئی ہوتی تھیں اونچی نہیں ہوتی تھیں۔ آنحضرت ﷺ عمامہ کے نیچے ٹوپی کا التزام رکھتے تھے۔ فرماتے ہیں کہ ہم میں اور مشرکین میں بھی فرق ہے کہ ہم ٹوپیوں پر عمامہ باندھتے ہیں (ابوداود)

              حضور پُر نور جب عمامہ باندھتے تو اس کا شملہ دو شانوں کے درمیان لٹکا لیتے اور کبھی دائیں جانب اور کبھی بائیں جانب ڈال لیتے اور کبھی تحت الحنک تھوڑی کے نیچے لپیٹ لیتے حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حق تعالی نے جنگِ بدر اور جنگ حنین میں میری امداد کے لئے ایسے فرشتے اتارے جو عمامے باندھے ہوئے تھے جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے ﵟبِخَمۡسَةِ ءَالَٰفٖ مِّنَ ٱلۡمَلَٰٓئِكَةِ ‌مُسَوِّمِينَﵞ 

              پاجامہ: حدیث میں ہے کہ آپ نے منیٰ کے بازار میں پاجامہ بکتا ہوا دیکھا۔ دیکھ کر اسے پسند فرمایا اور فرمایا کہ اس میں بہ نسبت ازار کے تستّر [8]زیادہ ہے اور اس کو خرید فرمایا لیکن استعمال کرنا ثابت نہیں۔

              قمیص: پیراہن آپ کو بہت محبوب تھا۔ سینہ پر اس کا گریبان تھا کبھی کبھی اس کی گھنڈیاں کھلی ہوئی ہوتی تھیں۔

              لُنگی: آپ کے تمام کپڑےٹخنوں سے اوپر رہتے تھے بالخصوص آپ کا تہمد آدھی پنڈلی تک ہوتا تھا۔

              موزے: بھی استعمال فرماتے تھے اور ان پر مسح فرماتے۔

              گدّا: آپ کا گدا ایک چمڑے کا ہوتا تھا۔ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوتی تھی اور بسااوقات حضور پُر نور ایک بوریئے پر سویا کرتے تھے حصیر (بوریا) آپ کا بستر تھا۔

              انگوٹھی: دست مبارک میں چاندی کی انگوٹھی بھی استعمال فرماتے تھے۔ آن حضرت ﷺ نے جب قیصرِ روم اور نجاشی شاہ حبشہ وغیرہ کو دعوتِ اسلام کے خطوط لکھنے کا ارادہ فرمایا کہ سلاطین بدوں مُہر کے کوئی تحریر قبول نہیں کرتے اس لئے آپ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی جس میں تین سطروں میں اوپر نیچے محمد رسول اللہ لکھا ہوا تھا۔

              نعلین مبارکین: نعلین مبارکین چپل کے طرز کے ہوتے تھے کہ جس میں نیچے صرف ایک تَلا ہوتا تھا اور اوپر دو تسمے لگے ہوتے تھے۔ جن میں انگلیاں ڈال لیتے تھے۔ (زرقانی)

[’’سیرۃ المصطفےٰ ‘‘ مصنفہ مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ، ج۳، ص۳۸۲؛ ط: ادارہ علم و حکمت دیوبند]


[1]  علامہ سید سلیمان ندویؒ رحمت عالم میں لکھتے ہیں: مشہور روایت یہ ہے کہ یہ بارہ ربیع الاول کی تاریخ تھی مگر خاص لوگوں کی تحقیق یہ ہے کہ ربیع الاول کی پہلی تھی۔ (رحمت عالم، ص۱۴۴؛ ط: ثاقب بک ڈپو، دیوبند)

[2]  وہ لڑائی جس میں خود رسول اللہ ﷺ تشریف لے گئے ہوں غزوہ کہلاتی ہے۔ (تاریخ الاسلام از مولانا محمد میاں دیوبندیؒ ج۲، ص۵۳)

[3]  کنواری

[4]  کنیزوں

[5]  وہ کنیز جس کے بطن سے اس کے آقا کا بچہ پیدا ہو

[6]  ایک قسم کا ریشمی کپڑا

[7]  ریشمی کپڑا

[8]  ستر پوشی، ڈھانکنا

No comments:

Post a Comment