Featured Post

بداية المتعلم: کلمے، دعائیں، وضو، غسل اور نماز

  Click here to read/download (PDF) بسم الله الرحمن الرحيم اسلام کے کلمے کلمۂ طیبہ لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُو ْ لُ ال...

Sunday, March 19, 2023

روزہ اور تقویٰ

روزہ اور تقویٰ

حضرت مولانا اسرار احمد قاسمیؒ

      لیجئے رمضان المبارک  پیارہ مہینہ رخصت ہوا تراویح کی لمبی لمبی قطاریں شب بیداریاں، تہجد گذاریاں، تسبیح وتہلیل سے معمور راتیں جا چکیں، نہ وہ جھمیلے ہیں اور نہ وہ مقدس چہل پہل ہے۔ کیا روزہ اور رمضان کی غرض وغایت صرف یہیں تک محدود تھی؟ نہیں نہیں ایسا ہر گز نہیں بلکہ اسلام نے اور قرآن عزیز نے روزہ کا مقصد روزہ کی غرض روزہ کا نتیجہ تقویٰ بتایا ہے، دوسرے معنی میں روزہ ایک ایسی انقلابی عبادت ہے جس سے ایک مؤمن کی زندگی کے دھارے مُنقلِب ہو جاتے ہیں، زندگی ایک زبردست انقلاب سے ٹکراتی ہے۔ اگر تمام شرعی قوانین کی رعایت کے مطابق تم نے یہ ماہ مقدس تمام کیا ہے تو یقین جانئے تمہاری رگ رگ میں خشیت الہی، ریشے ریشے میں خوف خدا، خون کے ہر ہر قطرہ میں اللہ کی یاد اس کی عظمت ومحبت جلوہ گر ہو چکی ہے، یقینا روزہ مؤمن کو ایک ایسی شاہراہ پر ڈال دیتا ہے کہ جس سے ایک بندۂ خدا عبدیت کے حقیقی مَدارِج  طے کر لیتا ہے اسے زندگی کی حقیقی معراج نصیب ہوتی ہے، سرمایہ زندگی ملتا ہے یہ وہ دائمی دولت اور لا زوال نعمت ہے جسکی بدولت ایک انسان کائنات ہست وبود میں ممتاز ہو جاتا ہے قرآن عزیز کا لفظ کتنا پیارا ہے کہ روزہ کا بدل تقویٰ ہے، ہمارا مقصد اس لفظ کی تشریح نہیں صرف اتنا بتائے دیتے ہیں کہ تقویٰ کے بعد ایک انسان کا مرتبہ کتنا عظیم ہو جاتا ہے مختلف طریق سے کتب احادیث میں یہ روایت بہت سی جگہ موجود ہے اور اِزالۃ الخفا صفحہ ۲۴۸ پر حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ روایت یوں نقل فرمائی ہے یوم الجبل میں آنحضرت ﷺ اور چند صحابہ کسی پہاڑ پر چڑھے وہ پہاڑ لرزنے لگا حضرت عثمان غنیؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے اپنا پائے مبارک پہاڑ پر مارتے ہوئے فرمایا اُسکُن اے پہاڑ تو ٹھہر جا، ساکن ہو جا، کیونکہ تیری پشت پر صرف ایک نبی ، ایک صدیق اور شہید ہیں، اس روایت سے معلوم ہوا کہ پہاڑ جیسی مستحکم فولادی جسامت لرزنے لگی۔ اس کے لرزنے کی وجہ یقینا یہ سمجھ میں آتی ہے کہ:

    پیغمبرے انسانیت کا تقویٰ، صدیق اکبر کا تقویٰ اور دو شہید انمیں عمر و عثمان تھے عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کا تقویٰ ، یہ وہ قوت ایمانی اور ذوق رحمانی تھا جس کی تاب پہاڑ نہ لاسکا، پہاڑ کانپنے لگا لرزنے لگا۔

    احیاء العلوم میں حضرت امام غزالیؒ نے اور حجۃُ اللہِ البالغہ میں حضرت شاہ ولی اللہؒ نے یہ روایت نقل فرمائی ہے، کون نہیں جانتا کہ حضرت بلال حبشیؓ ابن حبشی غلام ابن غلام ہیں لیکن ان کے مرتبہ کو دیکھئے کہ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اے بلال تم وہ کون سا عمل کرتے ہو کہ تمہارے قدم کی آہٹ میں نے آسمانوں پر سنی کہ تم مجھ سے آگے آگے جاتے ہو، اِزالۃ الخفا میں ایک دوسری روایت حضرت شاہ ولی اللہؒ نے نقل فرمائی ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں حضرت ابو بکرؓ فرمایا کرتے تھے سیدا ہذہِ الامۃ یہ امت مسلمہ کے سردار ہیں پوری امت محمدیہ کی سیادت وقیادت کا اہل بلالؓ کو قرار دینا یقینا ان کے نور ایمان ان کے تقویٰ وطہارت کی جلوی گری ہے۔ ازالۃ الخفا میں حضرت عثمان غنیؓ کے بارے میں یہ روایت موجود ہے، گرمی کا موسم ہے آنحضرت ﷺ بعض حصہ جسم کو کھولے ہوئے بیٹھے ہیں اور صحابہ آپ کے پاس بیٹھے ہیں طبع نبوت پر کوئی اثر نہیں، لیکن جیسے ہی حضرت عثمان غنیؓ تشریف لاتے ہیں آنحضرتؐ جسم پاک کو کپڑے سے ڈھانپ لیتے ہیں لوگوں کے استعجاب وحیرت کو دور فرمانے کے لئے آپ ؐنے فرمایا کہ کیا میں اس سے نہ شرماؤں جس سے فرشتے شرماتے ہیں، میں اس سے حیا نہ کروں جس سے ملائکہ حیا کرتے ہیں۔

    احیاء العلوم ہی میں ایک اور روایت حضرت عمرؓ کے بارے میں اس طرح مروی ہے، ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اے عمر! میں نے جنت میں ایک خوب صورت محل دیکھا جس کے اندر ایک حوض ہے اور حوض کے کنارے ایک خوب صورت عورت ہے جو وضو کر رہی ہے میں اندر جانے کا ارادہ کر رہا تھا کہ میں نے دریافت کیا کہ یہ محل کس کا ہے جواب ملا کہ یہ حضرت عمرؓ کا محل ہے اے عمر! مجھے تمہاری غیرت یاد آگئی اور میں اندر نہیں گیا، حضرت عمر ؓیہ واقعہ سنکر رونے لگے اور بار بار یہ فرما رہے تھے کہ یا رسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں، آپ پر عمر قربان ہو جائے، عمر کی غیرت قربان آپ کیوں اندر تشریف نہ لے گئے، غور کیجئے یہ وہی عمرؓ ہیں جو شمشیر بکف آنحضرتؐ کا سر لینے چلے تھے آج ان  عمرؓ  کا مرتبہ آنحضرت ؐ کی زبانی سنئے،کہ نبی بھی ان کے پاس غیرت کا لحاظ فرما رہے ہیں، یقینا یہ عمرؓ کا نور باطن ہے، کامل تقویٰ ہے، آنحضرت ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ عمرؓ جن راستوں پر چلتے ہی وہاں شیطان کا گذر نہیں ہوتا، شیطان ان راہوں کو چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔

    احیاء العلوم میں ایک دوسری روایت اس طرح منقول ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ طیبہ میں کچھ حبشی کھیل تماشہ کر رہے تھے، لوگوں کا مجمع کافی تھا، چاروں طرف سے لوگ گھیرا ڈالے کھڑے تھے اسی اثناء میں فاروق اعظمؓ کا اس راستے پر گذر ہوا، حضرت عمرؓ کو دیکھتے ہی مجمع منتشر ہو گیا اور لوگ ادھر ادھر بھاگنے لگے، عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ آنحضرتؐ لوگوں کی گھبراہٹ دیکھ کر مسکرانے لگے اور آپؐ کے بعض دندان مبارک تک ظاہر ہوگئے، حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ یا رسول اللہ اس تبسم کی کیا وجہ ہے آپؐ نے فرمایا کہ اے عائشہ! کیا تم لوگوں کا بھاگنا نہیں دیکھ رہی ہو، اس سے بھی زیادہ شیاطین گھبرا کر بھاگ رہے ہیں ، اے عائشہ! جس راہ پر عمر چلتے ہیں اور عمر کا گذر ہوتا ہے شیاطین ان راہوں پر نہیں چلتے۔

    ان تمام مذکورہ واقعات کو بیان کرنے سے ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ عند اللہ تقویٰ کتنی عظیم قوت ہے اور ایک متقی کا مرتبہ خدا کے نزدیک کتنا زبر دست ہے۔

    اس عظیم المرتبت قوت نعمت کو روزہ کا ما حصل اور نتیجہ قرار دیا گیا ہے قرآن عزیز نے سچ کہا: اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اَتْقَاكُمْ 

No comments:

Post a Comment