Featured Post

بداية المتعلم: کلمے، دعائیں، وضو، غسل اور نماز

  Click here to read/download (PDF) بسم الله الرحمن الرحيم اسلام کے کلمے کلمۂ طیبہ لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُو ْ لُ ال...

Sunday, May 23, 2021

بیت المقدس: ایک اجمالی خاکہ

Click here to read/download PDF

 اسلام میں بیت المقدس کی اہمیت اور اس کی تاریخ پر ایک سوال کے جواب میں مختصر تحریر


بسم اللہ الرحمن الرحیم

پس منظر:

مسجد اقصی یا بیت المقدس شہر یروشلم میں واقع ہے اور یروشلم ارض مقدس کا حصہ ہے۔   قدیم زمانہ میں اس علاقہ کو  کنعان  پھر فلسطین کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ یہ خطۂ ارض موجودہ دور میں اسرائیل ، فلسطین، کچھ حصہ اُردن،  لُبنان اور ملک شام (سوریا) پر محیط ہے۔

مسجد اقصی متعدد انبیاء کرام ؑ کا مسکن اور مرکز رہا ہے، یہیں سے توحید کی دعوت دور دراز علاقوں تک پھیلی اس علاقہ کو اللہ تعالی نے برکت والا علاقہ قرار دیا ہے اسی لئے اس کی مذہبی اہمیت  و مرکزیت کے قائل یہودی، عیسائی اور مسلمان ہمیشہ سے رہے ہیں کیونکہ حضرت ابراہیمؑ اور انکے بعد آنے والے کئی ایک پیغمبر جو اس خطہ میں مبعوث ہوئے ان کا تعلق ان تینوں قوموں سے ہے۔

عیسائوں کے یہاں ایک خاص وجہ اہمیت کی یہ بھی ہے کہ انکے عقیدے کے مطابق عیسیٰ ؑ کو یروشلم ہی میں سولی پر چڑھایا گیا اور دفن کیا گیا تھا چنانچہ مسجد اقصی سے کچھ فاصلہ پر انکا سب سے اہم چرچ موجود ہے جس کے نیچے وہ عیسیؑ کی قبر بتاتے ہیں اور عیسیؑ کا مقام پیدائش بیت لحم یروشلم سے قریب ہی واقع ہے۔

اسلامی حیثیت:

نبی ﷺ سے متعدد حدیثوں میں مسجد اقصی کی فضیلت ثابت ہے چنانچہ حضور ﷺ نے فرمایا: تین مسجدوں کے سوا کسی کے لئے رخت سفر نہ باندھے جائیں؛ مسجد الحرام، مسجد الاقصی اور میری مسجد (مسجد نبوی) [بخاری: ۱۱۹۷] اور ایک حدیث میں آپ ﷺ نے مسجد اقصی میں نماز پڑھنے کو پچاس ہزار نماز کے برابر فرمایا۔ [ابن ماجہ: ۱۴۱۳] حضرت ابوذرؓ نے نبی ﷺ سے معلوم کیا کہ: سب سے پہلے روئے زمین پر کون سی مسجد بنی؟ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ مسجد الحرام پھر سوال کیا کہ اور اس کے بعد؟ نبی ﷺ نے فرمایا کہ مسجد الاقصی (بیت المقدس) [بخاری: ۳۳۶۶] نبی ﷺ نے مسجد اقصی کی جانب رخ کر کے کچھ سولہ مہینہ نماز پڑھی ہے پھر بحکم الہی بیت اللہ کو قبلہ قرار دیا گیا۔ نیز معراج کی رات اسی مقام پر حضور ﷺ نے عجائبات قدرت کا مشاہدہ کیا اور پھر یہیں سے آپ ﷺ کو معراج ہوئی۔

مذکورہ بالا روایات سے اسلام میں بیت المقدس کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ وہ مسلمانوں کے لئے منجملہ تین مقامات مقدسہ میں سے ایک ہے۔

تاریخ قبل مسیحؑ:

اس علاقہ میں زمانہ قدیم میں بنو اسرائیل اور انکے علاوہ مختلف قومیں اور نسلیں آباد رہی ہیں حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں بنو اسرائیل کے نقل مکانی کا واقعہ مشہور ہے۔ پھر ایک وقت آیا کہ بنو اسرائیل نے اس خطے پر حکومت کی اور ان میں حضرت داؤد علیہ السلام، سلیمان علیہ السلام جیسے پغمبر بادشاہ ہوئے تاریخ میں بیت المقدس اور اس سے متعلقہ علاقہ کئی ایک مرتبہ بیرونی حملوں کی زد میں  آیا لیکن ان میں دو حملوں کوخاص اہمیت دی جاتی ہے ایک جب تقریبا ساڑے پانچ سو سال قبل مسیح شہر بابل (عراق) کے بادشاہ بخت نصر نے بیت المقدس پر چڑھائی کی اور شہر یروشلم کو فتح کر کے اپنے ساتھ بہت سے بنو اسرائیلیوں کو قیدی بناکر لے گیا اور مال و دولت لوٹا ساتھ ہی شہر کو اور مسجد اقصی کو تباہ کر دیا۔ مسجد اقصی کی یہ وہ تعمیر تھی جو حضرت سلیمانؑ نے بنائی تھی اور جسے یہودی ہیکل سلیمانی(Solomon’s Temple)  کہتے ہیں۔ پھر چند سالوں کے بعد شاہ فارس کیخسرو (سائرس متوفی: ۵۳۰ ق۔م اور بقول مولانا ابو الکلام آزادؒ یہی بادشاہ ذو القرنین تھا) نے بنو اسرائیل کو آزاد کرایا اور انہیں یروشلم لوٹنے کی اجازت دی۔ بیت المقدس کو دوبارہ تعمیر کرنے میں بھی امداد کا وعدہ کیا پھر اس کے بعد اس کے لڑکے دارا نے باپ کے وعدہ کو پورا بھی کیا۔

تاریخ بعد مسیحؑ:

پھر ایک وقت آیا کہ یہ علاقہ سلطنت روم کے ماتحت آگیا اور  پھر اسی دور میں یہودیوں کی سازشوں کا نتیجہ تھا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کا واقعہ پیش آیا کہ رومی آپکے درپئے آزار ہوئے۔ عیسیؑ کے دنیا سے اٹھائے جانے کے تقریبا ۴۰ سال بعد (سنہ ۷۰ء میں)  ایک رومی بادشاہ طیطس (متوفی: سنہ ۸۱ء) نے شہر اور مسجد کی وہی حالت بنائی جو بخت نصرنے کی تھی۔ علمائے اسلام ان ہی دونوں واقعوں کو قرآن کریم کی ان آیتوں کا مصداق قرار دیتے ہیں:  {وَقَضَيۡنَآ إِلَىٰ بَنِيٓ إِسۡرَـٰٓءِيلَ فِي ٱلۡكِتَٰبِ لَتُفۡسِدُنَّ فِي ٱلۡأَرۡضِ مَرَّتَيۡنِ وَلَتَعۡلُنَّ عُلُوّٗا كَبِيرٗا...}۔ بیت المقدس (دیوار بُراق)  سے متصل  یہودیوں کے لیے سب سے مقدس مقام دیوار گریہ اسی دوسرے حملہ کے  بعد کے باقیات میں سے مانی جاتی ہے جو رومی بادشاہ ہیرودس (متوفی:  سنہ ۱ یا ۴ ق م)  کی تعمیر کردہ بتائی جاتی ہے ۔

یہاں رک کر یہ بات ذہن میں رہے کہ اس وقت تک رومیوں نے عیسائی مذہب اختیار نہیں کیا تھا اور نہ وہ یہودی تھے بلکہ وہ بت پرست قوم تھی۔ سنہ ۳۱۲ء میں رومی بادشاہ قسطنطین کے عیسائی ہونے کے بعد عیسائیت کو فروغ حاصل ہوئی اور اسی بادشاہ نے بیت المقدس کے قریب عیسا ئیوں کے سب سے مقدس چرچ کی تعمیر کی۔ اس کے بعد عیسائی رومی حکمراں یک بعد دیگر اس علاقہ پر حکمرانی کرتے رہے۔ یہاں تک کے حضرت عمرؓ کی خلافت کا زمانہ آیا۔

دور فاروقیؓ:

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک یہ مسجد ویران پڑی رہی حتی کہ آپ نے تعمیر کرائی۔ آپ کے زمانۂ خلافت سنہ ۱۶ھ (۶۳۷ء) میں بیت المقدس اور شہر فتح ہوا اور اسی کے ساتھ ملک شام، فلسطین کے دیگر مقامات بھی فتح ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ حضرت امیر معاویہؓ کے زمانے میں یہ مسلمانوں کا ایک مضبوط و مستحکم علاقہ قرار دیا جانے لگا۔ مسلمان بدستور اس پورے خطہ پر بعد میں آنے والی کئی صدیوں تک برابر حاکم رہے۔

صلیبی جنگوں کا آغاز:

مسلمانو کے ماتحت یہ سارا علاقہ خوب پھلا پھولا کہ یہاں کی خوشحالی کے چرچے یورپ تک پہنچنے لگے یہ وہ دور تھا کہ یورپ کی عام عوام مالی بحران کا شکار ہو رہی تھی۔ وہاں کے حکمران اور مذہبی  طبقہ نے اس کا حل یہ نکالا کے لوگوں کو  مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا اور جنگ کے لیے ابھارا  کچھ  اس زمانے میں مسلمانوں سے چھڑپے بھی چل رہی تھی۔  حکام اور پاپائے روم کو اپنی غریب عوام کی اقتصادی حالت  کو درست کرنے اور عیسائی مذہبی مقامات کی بازیابی کا یہ سنہرا موقع نظر آرہا تھا۔  چنانچہ اس کے نتیجے میں  پہلی صلیبی جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا اور بالآخر سنہ ۱۰۹۹ء میں پہلی صلیبی جنگوں  میں مسلمانوں کی شکست کے بعد  بیت المقدس یورپین  صلیبی بادشاہوں کے ہاتھوں چلا گیا۔ صلیبیوں  نے یروشلم میں داخل ہونے کے بعد یہاں کی مسلم، عیسائی اور یہودی عوام کی لاشوں کے انبار لگا دیئے اور   بڑے مظالم ڈھائے۔  ۸۸ سال بعد سنہ ۱۱۸۷ء میں اللہ تعالی کے فضل سے بیت المقدس پر  سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کی قیادت میں ایک بار   پھر  مسلمانوں کی حکمرانی کا دور شروع ہوا۔   لیکن پھر مسلمانو میں آپسی انتشار اور خاندانی اختلافات کی وجہ سے سلطان ؒ کے ہاتھوں ارض مقدس کے کئی ایک اہم مقامات جاتے رہے ، یورپ کی طرف سے تیسری صلیبی جنگوں کا آغاز ہو گیا تھا (دوسری صلیبی جنگوں کا سلسلہ  نور الدین زنگی کے زمانے میں شروع ہوا تھا) اور سلطانؒ کے لیے ان حالات میں متحدہ یورپی افواج کا مقابلہ دن بدن دشوار ہوتا جا رہا تھا   لیکن اس سب کے باوجود سلطانؒ نے بیت المقدس کو اپنے ہاتھوں سے جانے نہیں دیا اور نہ ہی شاہان یورپ کے سامنے جکھنے  یا دب کر صلح کے لیے تیار ہوئے۔ بالآخر اس قدر آزمائش و محنت کا اثر سلطانؒ کی صحت پر پڑا اور جلد ہی ۵۵ یا ۵۶ سال کی عمر میں  سنہ ۱۱۹۳ء میں سلطانؒ کا انتقال ہو گیا۔

سلطان صلاح الدین ایوبی کے بعد انکے اَخلاف میں شدید اختلاف برپا رہا نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ سنہ ۱۲۲۹ ء  سے لیکر سنہ  ۱۲۴۴ء تک بیت المقدس اور شہر مسلمانوں کے قبضہ سے نکل گیا اور صلیبیوں کے ہاتھوں میں چلا گیا لیکن صلیبیوں نے بیت المقدس کو حاصل کرنے کے بعد شہر میں اپنا کوئی حاکم مقرر نہیں کیا گو قانونا قبضہ صلیبیوں کا  رہا لیکن انتظام مسلمانوں ہی کے ہاتھوں میں تھا۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ حضرت عمر ؓ کے بعد سے مسجد اقصی سے مسلمان کلی طور پر کبھی بھی محروم نہیں رہے چاہے شہر کسی کے  بھی قبضہ میں  رہا ہو نیز صدیوں کی اس کشمکش کے دوران خاص مسجد اقصی کو لیکر  عیسائی اور یہودیوں کی طرف سے مسلمانوں کے لیے  کبھی کوئی قابل ذکر تنازع نہیں کھڑا کیا گیا۔

دور ترکی عثمانی خلافت:

سنہ ۱۲۴۴ء سے لیکر سنہ ۱۹۱۷ء  تک صلیبی افواج بیت المقدس میں داخل نہیں ہوسکی اور اس بیچ مسلمانوں کے کئی ایک خاندان نے یہاں مختلف ادوار میں حکومت کی۔ خاندان ایوبی  کے بعد خاندان مملوک نے یہاں سنہ ۱۵۱۶ء تک حکمرانی کی پھر ان سے ترک عثمانی خلیفہ سلیمان قانونی نے حکومت چھین لی اور اسی کے ساتھ شہر کی نشاط ثانیہ کا آغاز ہوا اور ایک  مدت تک اس پورے علاقہ نے امن و امان کے ماحول میں چَین کی سانس لی۔   سلیمان قانونی نے شہر کی فصیل تعمیر کی جو آج بھی قائم ہے اور جس سے قدیم شہر کی نشاندہی ہوتی ہے ۔ شہر کے اسی قدیم حصہ میں تمام مذہبی اور تاریخی  مقامات واقع ہیں۔ عثمانیہ دور خلافت میں پورے شہر میں تینوں مذاہب کے پیروکار بغیر کسی اختلاف کے رہتے رہے ، ایک ہی سڑک پر مسجد بھی چرچ بھی اور یہودی صَومِعَہ  دیکھے جا سکتے تھے۔

صہیونی تحریک:

اس طویل عرصہ میں یروشلم اور اطراف  کی مسلم، عیسائی اور یہودی  آبادی مسلسل گھٹتی جا رہی تھی خصوصا یہودی بہت تھوڑے رہ گئے تھے، اٹھارہوی اور انیسوی صدی میں زیادہ تر یہودی یورپین ممالک اور کچھ دیگر ممالک میں پائے جاتے تھے    لیکن پھر انیسوی صدی کے اَواخر میں ایک عالمی یہودی تحریک نے جنم لیا جسے صہیونی تحریک کہا جاتا ہے۔ یہ تحریک تعصب اور متشدد نظریات پر مبنی تھی۔ اس تحریک کے بانی یورپین یہودی تھے جنہوں نے یہ نظریہ رکھا کہ  یہودیوں کی اپنی ایک ریاست اور ملک ہونا چاہئے ۔صہیونی تحریک  میں دو باتوں پر خاص طور پر زور دیا گیا ایک یہ کہ ساری دنیا کے یہودی فلسطین کی طرف ہجرت کریں کہ وہاں ایک یہودی ریاست قائم کر سکیں اور  دوسرے یہودی اپنے معاشرے میں عبرانی زبان کو فروغ دیں۔  چنانچہ اس کے نتیجے میں یورپ سے یہودیوں نے  جوق در جوق فلسطین کی طرف ہجرت کرنا شروع کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہودی نو آبادیاں سارے فلسطین میں پھیل گئیں۔ اس طرح فلسطین کی  اراضی کا ایک بہت بڑا حصہ طوعاً و کرہا یہودیوں کے قبضہ میں  آتا چلا گیا۔

اس تحریک کی کامیابی کے بظاہر دو وجہ تھیں ایک مغربی ممالک کی مکمل پشت پناہی اور حمایت دوسرے یہ وہ زمانہ تھا کہ  خلافت  عثمانیہ دن بدن کمزور پڑتی جا رہی تھی اور یہ سارا علاقہ اسی کے ماتحت تھا پھر ادھر سنہ ۱۹۱۴ء میں پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی جس میں ترکی نے برطانیہ، فرانس  وغیرہ کے مقابل جرمنی وغیرہ کا ساتھ دیا ۔  یہ جنگ جرمنی اور اسکے ساتھی ممالک بری طرح ہار گئے تھے جس کے نتیجے میں فاتح برطانیہ  وغیرہ نے  مفتوح ممالک کے کئی حصوں پر قبضہ کرنا  اور ان پر جرمانہ عائد کرنا  شروع کیا چنانچہ سنہ ۱۹۱۷ء میں نہ صرف یہ کہ  برطانیہ فوج بیت المقدس میں داخل ہو گئی بلکہ پورے فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ ہو گیا اور  فلسطین سے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہو گیا۔

نیا دور:

برطانیہ دور اقتدار سے سرزمین فلسطین کی آزمائش کا دور شروع ہو تا ہے۔ اس زمانے میں  پہلے سے اور  زیادہ یورپین یہودی نقل مکانی کر کے فلسطین آبسے تھے۔  عرب مسلمانوں اور  یورپین یہودیوں  کے درمیان تصادم شروع ہوئے لیکن یہ صرف چھڑپے تھی کہ مسلمانوں کی طرف سے باقاعدہ کوئی منظم   اقدام نہیں ہوا۔ حکومت برطانیہ  ایک طرف تو عربوں سے فلسطین دینے کا وعدہ کرتی رہی اور ادھر دوسری طرف یہودیوں سے سرزمین فلسطین پر ان کی خواہش کے مطابق  ایک نیا ملک اسرائیل کی تشکیل  کا بھی معاہدہ کر لیا۔ برطانیہ نے یہودیوں سے وعدے کا ایفا کیا لیکن عربوں سے وعدہ خلافی کی اور نتیجتا سنہ ۱۹۴۸ء  میں  ریاست اسرائیل قائم ہو گئی۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ سنہ ۱۹۴۷ء میں اقوام متحدہ نے ایک قرار داد پاس کی تھی  کہ فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا ایک حصہ یہودیوں کے لئے اور دوسرا عربوں کے لئے اور یروشلم کے مذہبی تشخص برقرار رکھتے ہوئے اس پر کسی کا قبضہ نہیں ہوگا بلکہ وہ ایک الگ  عالمی شہر ہوگا لیکن اس پر آج تک عمل نہیں ہوا۔

سنہ ۱۹۴۸ء میں حکومت برطانیہ نے اس علاقہ سے اپنا قبضہ ہٹا لیا لیکن اس کے ساتھ ہی یروشلم پر قبضہ کی تگ و دو شروع ہو گئی اس لیے کہ یروشلم پر  یہودیوں کا ابھی مکمل قبضہ نہیں ہوا تھا۔ اب جو لڑائی کا دور شروع ہوا وہ پہلے سے اور زیادہ شدید تھی اس لڑائی میں قرب و جوار کے مسلم ممالک بھی شامل ہو گئے۔ بالآخر  سنہ ۱۹۶۷ء میں مصر ، سوریا اور اردن سے  چھ دنوں کی جنگ کے بعد اسرائیل نے یروشلم پر قبضہ کر لیا، جس کے نتیجے میں  اسرائیل کا بیت المقدس پر آج تک قبضہ چلا آرہا ہے۔ اس کے بعد صہیونی تحریک کا سب سے اہم ہدف بیت المقدس کی جگہ ایک عظیم یہودی عبادت خانہ کی تعمیر ہے۔ پس ماضی قریب میں جس قدر تشدد اور فساد اس پورے خطے میں برپا ہوا ہے اس کی ایک اہم وجہ بیت المقدس کی طرف اسرائیل کی پیش قدمی ہے۔

اس وقت صورت حال کچھ اس طرح ہے کہ اسرائیلی مسلمانوں کو انکے گھروں سے اور انکی جائدادوں سے جب چاہے بے دخل کردیتے ہیں۔ فلسطین کے نام پر مسلمانوں کے پاس دو مختصر سے علاقے ہیں ایک غزہ پٹی کہلاتا ہے اور دوسرا مغربی کنارہ جو دریا اردن سے متصل ہے اور اب یہ  دونوں علاقے بھی حقیقت میں  ان ہی کے تابع ہیں کہ ان کی مرضی کے بغیر یہاں کوئی داخل ہو سکتا ہے اور نہ نکل سکتا ہے وہ اپنی مرضی سے جو چاہیں تصرف کریں۔   مغربی کنارہ میں بیت المقدس واقع ہے جو اب پوری طرح اسرائیلیوں کے قبضہ میں ہے۔

انشاء اللہ اس اجمال سے بیت المقدس کی تاریخ اور وجہ  اختلاف سمجھنا آسان ہو گیا ہو گا۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين وصلى الله على النبي الكريم وعلى الله توكلنا ربنا لا تجعلنا فتنة للقوم الظالمين.

شمس تبریز 

 ۷؍ شوال ۱۴۴۲ھ م ۲۰ مئی ۲۰۲۱ء

No comments:

Post a Comment