Click here to read/download in PDF (Page Size - A5)
دن رات کی مؤکدہ سنتیں:
فجر کی سنتیں:
ظہر کی سنتیں:
عصر کی سنتیں:
مغرب کی سنتیں:
نمازِ اوّابین:
عشاء کی سنتیں:
وتر اور تہجد (قیام لیل):
وتر کے بعد کی دو رکعت:
چاشت یا اشراق کی نماز:
جمعہ کی سنتیں:
تراویح:
نماز توبہ:
نماز حاجت:
نماز استخارہ:
صلوٰۃ التسبیح:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سنن و نوافل
1. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص میرے ولی کو ایذاء پہنچاتا ہے تو میں اس کے ساتھ اپنی لڑائی کا اعلان کرتا ہوں اور میرا کوئی بندہ ٔ مومن میرا تقرب (اعمال میں سے) ایسی کسی چیز کے ذریعہ حاصل نہیں کرتا جو میرے نزدیک ہو جیسے ادائیگی فرضیہ کے ذریعہ میرا تقرب حاصل ہے۔ میرا بندہ ہمیشہ نوافل کے ذریعہ میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اسے اپنا دوست بنا لیتا ہوں۔ اور جب میں اسے اپنا دوست بنا لیتا ہوں تو میں اس کی سماعت بن جاتا ہوں کہ وہ اسی کے ذریعہ سنتا ہے میں اس کی بینائی بن جاتا ہوں وہ اسی کے ذریعہ دیکھتا ہے میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں کہ وہ اسی کے ذریعہ پکڑتا ہے میں اس کا پاؤں بن جاتا ہوں کہ وہ اسی کے ذریعہ چلتا ہے اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور وہ برائیوں اور مکروہات سے میری پناہ چاہتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں اور جس کام کو میں کرنے والا ہوں اس میں اس طرح تردد نہیں کرتا جس طرح کہ میں بندہ مومن کی جان قبض کرنے میں تردد کرتا ہوں کیونکہ وہ موت کو پسند نہیں کرتا حالانکہ اس کی نا پسندیدگی کو میں ناپسند کرتا ہوں اور موت سے کسی حال میں مفر نہیں ہے۔ [صحیح بخاری: ۶۵۰۲]
2. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرماتے تھے کہ قیامت کے دن بندے کے اعمال میں سے سب سے پہلے نماز کا حساب ہوگا، اور اس کی نماز جانچی جائے گی، پس اگر وہ ٹھیک نکلی تو بندہ فلاح یاب اور کامیاب ہوجائے گا، اور اگر وہ خراب نکلی تو بندہ ناکام اور نا مراد رہ جائے گا، پھر اگر اسکے فرائض میں کمی کسر ہوئی تو ربِ کریم فرمائے گا کہ دیکھو کیا میرے بندے کے ذخیرۂ اعمال میں فرائض کے علاوہ کچھ نیکیاں (سنتیں یا نوافل) ہیں؟ تاکہ ان سے اس کے فرائض کی کمی کسر پوری ہو سکے۔ پھر نماز کے علاوہ باقی اعمال کا حساب بھی اسی طرح ہوگا۔ [سنن ترمذی:۴۱۳]
دن رات کی مؤکدہ سنتیں:
3. ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ نے فرمایا میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ’’جو بندہ مسلمان ہر دن میں اللہ جل شانہ کیلئے فرض نمازوں کے علاوہ بارہ رکعتیں (سنت) پڑھتا ہے تو اللہ تعالی اس کے لئے جنت میں گھر بناتا ہے۔‘‘ یا یہ فرمایا کہ ’’اس کے لئے جنت میں گھر بنایا جاتا ہے۔‘‘ [صحیح مسلم: ۱۶۹۶]
4. ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’جو شخص دن رات میں بارہ رکعتیں (علاوہ فرض نمازوں کے) پڑھے، اس کیلئے جنت میں ایک گھر تیار کیا جائے گا (ان بارہ کی تفصیل یہ ہے) ۴؍ ظہر سے پہلے اور ۲؍ ظہر کے بعد اور ۲؍ مغرب کے بعد اور ۲؍ عشاء کے بعد اور ۲؍ فجر سے پہلے۔ [سنن ترمذی: ۴۱۵]
فجر کی سنتیں:
5. ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فجر کی دو رکعت سنت دنیا وما فیہا سے بہتر ہے۔ ] صحیح مسلم: ۱۶۸۸]
ظہر کی سنتیں:
6. حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ظہر سے پہلے کی چار رکعتیں جن کے درمیان میں سلام نہ پھیرا جائے (یعنی چار مسلسل پڑھی جائیں) اُن کے لئے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ [سنن ابو داود: ۱۲۷۰]
7. ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو کوئی ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور ظہر کے بعد چار رکعتیں برابر پڑھا کرے اللہ تعالیٰ اُس کو دوزخ کی آگ پر حرام کر دے گا۔ [سنن ابو داود: ۱۲۶۹]
عصر کی سنتیں:
8. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی رحمت اُس بندے پر جو پڑھے عصر سے پہلے چار رکعتیں۔ [سنن ابو داود: ۱۲۷۱]
9. حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عصر سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ [سنن ابو داود: ۱۲۷۲]
مغرب کی سنتیں:
10. حضرت مکحولؒ (تابعی) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص مغرب کی نماز پڑھ کر گفتگو کرنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھے، تو اس کی یہ نماز علیین میں پہنچائی جاتی ہے۔ (یعنی اس کی نماز قبولیت کے انتہائی مرتبہ پر پہنچتی ہے) [مصنف عبد الرزاق: ۴۴۸۳]
نمازِ اوّابین:
11. حضرت حذیفہؓ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؐ کے ہمراہ (پیچھے) مغرب کی نماز پڑھی پھر حضور ﷺ نے عشاء تک نماز (نوافل) پڑھی۔ [سنن کبریٰ نسائی: ۳۷۹]
حافظ منذریؒ نے فرمایا کہ امام نسائی ؒ نے اس حدیث کو جید سند سے روایت کیا ہے۔ [الترغیب والترھیب، ۱؍۲۴۳]
12. حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص مغرب کی نماز پڑھ کر چھ رکعت (اس طرح ) پڑھے کہ ان کے درمیان کوئی فحش گفتگو نہ کرے تو ان رکعتوں کا ثواب اس کے لئے بارہ سال کی عبادت کے ثواب کے برابر ہو جائے گا۔ [سنن ترمذی: ۴۳۵]
امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے کیونکہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کے ایک راوی ’عمر ابن ابی خثعم‘ کو بہت ضعیف قرار دیا ہے۔
13. ام المومنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص مغرب کے بعد بیس رکعتیں پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بناتا ہے۔ [سنن ابن ماجہ: ۱۳۷۳]
حافظ منذری ؒ نے فرمایا کہ امام احمدؒ وغیرہ نے اس حدیث کے ایک راوی ’یعقوب ابن ولید‘ کی تکذیب کی ہے۔ [ الترغیب والترھیب، ۱؍۲۴۲]
ملا علی القاری ؒ نے حافظ ابن حجر ؒ سےنقل کیا ہے کہ یہ نمازِ اوابین ہے، سلف صالحین کا اس نماز کو پڑھنے کا معمول رہا ہے۔ [مرقاۃ: ۱۱۷۴، ۳؍۲۲۷]
عشاء کی سنتیں:
14. ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اللہ ﷺ عشاء کی(فرض) نماز پڑھ کے میرے پاس تشریف لائے ہوں اور آپ نے ۴؍رکعتیں یا ۶؍ رکعتیں نہ پڑھی ہوں۔ [سنن ابو داود: ۱۳۰۳]
وتر اور تہجد (قیام لیل):
15. حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ وتر (طاق) ہے (یعنی اللہ اپنی ذات وصفات میں یکتا وتنہا ہے کہ اسکا کوئی مثل و شریک نہیں ہے)، وتر کو پسند کرتا ہے، لہذا اے اہل قرآن وتر پڑھو۔ [سنن ترمذی: ۴۵۳]
16. حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص (رات میں) سوتا ہے تو شیطان مردود اس کے سر کی گدی پر تین گرہ لگاتا ہے، ہر گرہ پر (یہ کہہ کر) مارتا ہے (یعنی اس کے دل میں یہ بات ڈالتا ہے) کہ ’’ابھی بہت رات باقی ہے سوتا رہ‘‘ لہذا اگر کوئی شخص (شیطان کے اس مکر میں نہیں آتا اور عبادت الہی کے لیے) جاگتا ہے اور اللہ کو یاد کرتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے، پھر جب وہ وضو کرتا ہے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے اور اس کے بعد جب نماز پڑھتا ہے تو تیسری گرہ (بھی) کھل جاتی ہے۔ چنانچہ ایسا شخص شا دماں اور پاک نفس صبح کرتا ہے ورنہ کاہل اور پلید نفس صبح کرتا ہے۔ [صحیح بخاری: ۱۱۴۲]
17. حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہمارا مالک اور رب تبارک وتعالیٰ ہر رات کو جس وقت آخری تہائی رات باقی رہ جاتی ہے آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے کون ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اُس کی دعا قبول کروں۔ کون ہے جو مجھ سے مانگے، میں اُس کو عطا کروں۔ کون ہے جو مجھ سے مغفرت اور بخشش چاہے، میں اس کو بخش دوں۔ [صحیح بخاری: ۱۱۴۵]
18. حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: فرض نماز کے بعد سب سے افضل درمیان رات کی نماز ہے (یعنی تہجد) [صحیح مسلم: ۲۷۵۶]
19. ام المومنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ رات میں تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے جن میں وتر اور سنت فجر کی دو رکعتیں بھی شامل ہوتی تھیں۔ [صحیح بخاری: ۱۱۴۰]
20. حضرت عبد اللہ بن ابی قبیسؒ تابعی سے روایت ہے کہ میں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کتنی رکعت وتر پڑھتے تھے؟ انھوں نے فرمایا کہ: چار اور تین، اور چھ اور تین، اور آٹھ اور تین، اور دس اور تین۔ اور سات رکعت سے کم اور تیرہ رکعت سے زیادہ وتر نہیں پڑھتے تھے۔ [سنن ابو داود: ۱۳۶۲]
21. حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ تیرہ رکعت وتر پڑھا کر تے تھے پس جب آپ بوڑھے اور ضعیف ہو گئے تو سات رکعت وتر پڑھی۔ [سنن ترمذی: ۴۵۷]
امام ترمذیؒ نے فرمایا کہ حضرت اسحاق بن ابراہیمؒ نے حدیث کا مطلب یہ بیان کیا کہ رات کی نماز (تہجد) تیرہ رکعت مع وتروں کے پڑھتے تھے سو تہجد کی، وتروں کی طرف نسبت کی گئی ہے۔
وتر کے بعد کی دو رکعت:
22. حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ وتر کے بعد دو رکعتیں اور پڑھتے تھے۔ [سنن ترمذی: ۴۷۱]
چاشت یا اشراق کی نماز:
23. حضرت ابو ذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر شخص کے جوڑ جوڑ پر صبح کو صدقہ ہے۔ پس ایک دفعہ سبحان اللہ کہنا بھی صدقہ ہے، اور الحمد للہ کہنا بھی صدقہ ہے، اور لا الہ الا اللہ کہنا بھی صدقہ ہے، اور اللہ اکبر کہنا بھی صدقہ ہے، اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی صدقہ ہے، اور اس شکر کی ادائیگی کے لئے دو رکعتیں کافی ہے جو آدمی چاشت کے وقت پڑھے۔ [صحیح مسلم: ۱۶۷۱]
24. حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے گھر سے فرض نماز کے ارادہ سے نکلتا ہے تو اس کا ثواب احرام باندھ کر حج پر جانے والے کی طرح ہے اور جو شخص چاشت کی نماز کے لیے نکلتا ہے اور وہ صرف اس کے لیے ہی مشقت میں پڑا (یعنی خالصتا نماز کے لیے نکلا اور ریاء یا اور کوئی غرض مقصود نہ تھی) تو اس کا ثواب عمرہ کرنے والے کی طرح ہے اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز اس طرح پڑھنا کہ درمیان میں کوئی بیہودہ بات نہ ہو یہ ایسا عمل ہے کہ اس شخص کا نام اہل جنت میں لکھا جاتا ہے۔ [سنن ابو داود: ۵۵۸]
25. حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر روانہ فرمایا انہیں خوب مال غنیمت حاصل ہوا اور وہ بہت جلدی واپس لوٹ آئے۔ ایک آدمی نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول ﷺ ہم نے اس لشکر سے بڑھ کر مال غنیمت حاصل کرکے اس قدر جلدی واپس لوٹنے والا لشکر آج تک نہیں دیکھا! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں اس کی خبر نہ دوں جو اس لشکر سے بھی جلدی بہت سا مال غنیمت حاصل کرکے لوٹنے والا ہے! آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص خوب اچھی طرح وضو کرکے مسجد کی طرف روانہ ہو اور فجر کی نماز پڑھ کر (مسجد ہی میں) چاشت کی نماز پڑھنے کے لیے بیٹھا رہے یہ شخص اس (لشکر) سے بھی کہیں جلدی بہت سا مال غنیمت (یعنی اجر وثواب) لے کر لوٹنے والا ہے۔ [مسند ابو یعلی: ۶۵۵۹]
حافظ منذریؒ فرماتے ہیں کہ مسند ابو یعلی کی اس حدیث کے راوی رجال الصحیح ہیں۔ [الترغیب والترھیب، ۱ ؍۲۸۱]
26. حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالی کی طرف سے نقل کیا ہے اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ: اے فرزند آدم! تو دن کے ابتدائی حصے میں چار رکعتیں میرے لئے پڑھا کر میں دن کے آخری حصے تک تجھے کفایت کروں گا۔ [مسند امام احمد: ۱۶۹۳۹]
27. حضرت معاذہ عدویہؒ بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ چاشت کی نماز کتنی رکعت پڑھا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ چار رکعتیں، اور اس سے زیادہ جتنی اللہ چاہتا۔ [صحیح مسلم: ۱۶۶۳]
28. حضرت عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰؒ فرماتے ہیں کہ ہم سے کسی صحابی نے یہ بیان نہیں کیا کہ اس نے آنحضرت ﷺ کو چاشت کی نماز پڑھتے دیکھا سوائے حضرت ام ہانی بنت ابی طالبؓ کے، انہوں نے فرمایا کہ جس دن مکہ فتح ہوا رسول اللہ ﷺ اُن کے گھر تشریف لائے اور وہاں آپ نے غسل فرمایا اور آٹھ رکعتیں (چاشت کی) پڑھیں (اور ایسی ہلکی اور مختصر پڑھیں کہ) میں نے کوئی نماز اس سے زیادہ ہلکی نہیں دیکھی، لیکن آپ رکوع سجدہ پوری طرح کرتے تھے۔ [صحیح بخاری: ۱۱۷۶]
29. حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب فجر پڑھتے تو ٹھہر جاتے حتی کہ جب سورج مشرق میں اتنا اوپر آجاتا جتنا عصر کے وقت مغرب میں ہوتا ہے تو آپ ؐ کھڑے ہو کر دو رکعتیں پڑھتے پھر ٹھہر جاتے یہاں تک کہ جب سورج مشرق میں یہاں تک آجاتا جتنا ظہر کے وقت وہاں ہوتا ہے تو آپؐ کھڑے ہو کر چار رکعتیں پڑھتے ۔ [سنن ابن ماجہ: ۱۱۶۱]
اگر یہ رکعتیں طلوع آفتاب کے تھوڑی ہی دیر(وقت مکروہ ختم ہونے) کے بعد پڑھی جائیں تو ان کو اشراق کہا جاتا ہے، اور دِن اچھی طرح چڑھنے کے بعد اگر پڑھی جائیں تو ان کو چاشت کہا جاتا ہے۔
[معارف الحدیث: ۳؍ ۳۵۵، فتح الملہم: ۴؍۴۶۸، معارف السنن: ۴؍۲۶۶]
جمعہ کی سنتیں:
30. حضرت عبد اللہ بن سائبؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سورج ڈھلنے کے بعد ظہر سے پہلے چار رکعت نماز پڑھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ’’یہ ایسا وقت ہے جس میں (نیک اعمال کے اوپر جانے کیلئے) آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں لہذا میں پسند کرتا ہوں کہ اس وقت میرا نیک عمل اوپر جائے۔‘‘ [سنن ترمذی: ۴۷۸]
علامہ زیلعیؒ اس حدیث کی بنا پر فرماتے ہیں کہ جمعہ اور ظہر سے پہلے چار رکعتیں دونوں کی سنت ہے ۔ [تبیین الحقائق: ۱؍۴۲۸]
امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے منقول ہے کہ وہ جمعہ سے پہلے چار رکعتیں اور جمعہ کے بعد چار رکعتیں پڑھتے تھے اور حضرت سفیان ثوریؒ اور حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ نے حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ کے اس قول کو اختیار کیا ہے۔ [سنن ترمذی: ۵۲۳]
31. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی جمعہ کی نماز پڑھے تو چاہیئے کہ اسکے بعد چار رکعت اور پڑھے۔ [مسلم شریف: ۲۰۳۶]
32. حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز جمعہ کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھتے تھے یہاں تک کہ مسجد سے گھر تشریف لے جاتے پھر گھر ہی میں دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ [صحیح مسلم: ۲۰۳۹]
33. نبی کریم ﷺ کے بعد حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے مسجد میں جمعہ کی نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھی اور پھر دو رکت کے بعد چار رکعتیں پڑھی ۔ [سنن ترمذی: ۵۲۳]
امام ابو یوسفؓ کے نزدیک جمعہ کے بعد چھ رکعت سنت ہے اور وہ پہلے چار رکعتیں پھر دو رکعتیں پڑھنے کو افضل کہتے ہیں۔
[مرقاۃ:۱۱۶۶، ۳؍۲۲۳]
تراویح:
34. حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص صحیح اعتقاد کے ساتھ اور حصول ثواب کے لئے رمضان میں قیام کرتا ہے (تراویح و تہجد پڑھے) اس کے سب پچھلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔ [صحیح بخاری: ۲۰۰۹]
35. حضرت یزید بن رومانؒ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں لوگ رمضان میں تئیس رکعتیں پڑھتے تھے۔
[موطا امام مالک: ۲۵۹]
نماز توبہ:
36. حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ مجھ سے حضرت ابو بکر ؓ نے بیان فرمایا (جو بلا شبہ صادق وصدّیق ہیں) کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرماتے تھے: جس شخص سے کوئی گناہ ہو جائے پھر وہ اُٹھ کر وضو کرے، پھر نماز پڑھے، پھر اللہ سے مغفرت اور معافی طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف فرما ہی دیتا ہے۔ اس کے بعد آپ نے قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت فرمائی: ﭐ ﱝ ﱞ ﱟ ﱠ ﱡ ﱢ ﱣ ﱤ ﱥ... [آل عمران: ١٣٥] [سنن ترمذی: ۴۰۶]
نماز حاجت:
37. حضرت عبد اللہ بن ابی اوفیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کو کوئی حاجت اور ضرورت ہو اللہ تعالی سے متعلق یا کسی آدمی سے متعلق اس کو چاہئے کہ وہ وضو کرے اور خوب اچھا وضو کرے، اسکے بعد دو رکعت نماز پڑھے، اسکے بعد اللہ تعالی کی کچھ حمد وثنا کرے اور اسکے بعد نبی ﷺ پر درود پڑھے، پھر اللہ کے حضور میں اس طرح عرض کرے:
لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ الْحَلِيْمُ الْكَرِيْمُ، سُبْحَانَ اللهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ، الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، أَسْاَلُكَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِكَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ، وَالْغَنِيْمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ، وَالسَّلَامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ، لَا تَدَعْ لِيْ ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَهُ، وَلَا هَمَّا إِلَّا فَرَّجْتَهُ، وَلَا حَاجَةً هِيَ لَكَ رِضًي إِلَّا قَضَيْتَهَا يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ. [سنن ترمذی: ۴۷۹]
امام ترمذی ؒنے فرمایا یہ حدیث غریب ہے، اس حدیث کے ایک راوی فائد بن عبد الرحمن کو ضعیف قرار دیا گیا ہے۔
علامہ سیوطیؒ نے فرمایا اس حدیث کو امام حاکم نے مستدرک میں بیان کیا ہے اور فرمایا ’ فائد‘ مستقیم الحدیث ہیں۔ (اللآلی المصنوعہ: ج۲؍۴۰)
38. حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا مستقل معمول اور دستور تھا کہ جب کوئی فکر آپ کو لاحق ہوتی اور کوئی اہم معاملہ پیش آتا تو آپ نماز میں مشغول ہو جاتے۔ [سنن ابو داود: ۱۳۱۹]
نماز استخارہ:
39. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہم کو اپنے معاملات میں استخارہ کرنے کا طریقہ اُسی اہتمام سے سکھاتے تھے جس اہتمام سے قرآن مجید کی سورتوں کی تعلیم فرماتے تھے، آپ ؐ ہم کو بتاتے تھے کہ جب تم میں سے کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرے (اور اسکے انجام کے بارے میں فکر مند ہو تو اُس کو اِس طرح استخارہ کرنا چاہئے) پہلے وہ دو رکعت نفل پڑھے، اُسکے بعد اللہ تعالی کے حضور میں اِس طرح عرض کرے:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي (یا یوں فرمایا عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ) فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي (یا یوں فرمایا عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ) فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِيَ الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ أَرْضِنِي بِهِ.
رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ: جس کا م کے بارے میں استخارہ کرنے کی ضرورت ہو استخارہ کی دعا کرتے ہوئے صراحۃ اس کا نام بھی لے۔ [صحیح بخاری: ۱۱۶۶، ۶۳۸۲]
صلوٰۃ التسبیح:
40. حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن اپنے چچا حضرت عباس بن عبد المطلب سے فرمایا: اے عباس، اے میرے محترم چچا! کیا میں آپ کو ایک خاص بات بتاؤں؟ کیا میں آپ کی خدمت میں ایک گرانقدر عطیہ اور ایک قیمتی تحفہ پیش کروں؟ کیا میں آپ کو ایک خاص بات بتاؤں؟ کیا میں آپ کے دس کام اور اور آپ کی دس خدمتیں کروں (یعنی آپ کو ایک ایسا عمل بتاؤں جس سے آپ کو دس عظیم الشان منفعتیں حاصل ہوں، وہ ایسا عمل ہے کہ) جب آپ اس کو کریں گے تو اللہ تعالی آپ کے سارے گناہ معاف فرما دے گا اگلے بھی اور پچھلے بھی، پُرانے بھی اور نئے بھی، بھول چوک سے ہونے والے بھی اور دانستہ ہونے والے بھی، صغیرہ بھی اور کبیرہ بھی، ڈھکے چھپے بھی اور علانیہ ہونے والے بھی (وہ عمل صلوٰۃ التسبیح ہے، اور اُس کا طریقہ یہ ہے کہ) آپ چار رکعت نماز پڑھیں اور ہر رکعت میں سورہ فاتحہ اور دوسری کوئی سورت پڑھیں، پھر جب آپ پہلی رکعت میں قرأت سے فارغ ہو جائیں تو قیام ہی کی حالت میں پندرہ دفعہ کہیں: سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلّهِ وَلَآ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ پھر اسکے بعد رکوع کریں اور رکوع میں بھی یہی کلمہ دس دفعہ پڑھیں، پھر رکوع سے اُٹھ کر قومہ میں بھی یہی کلمہ دس دفعہ کہیں، پھر سجدہ میں چلے جائیں اور اس میں بھی یہ کلمہ دس دفعہ کہیں، پھر سجدے سے اٹھ کر جلسہ میں یہی کلمہ دس دفعہ کہیں، پھر دوسرے سجدہ میں بھی یہی کلمہ دس دفعہ کہیں، پھر دوسرے سجدے کے بعد بھی (کھڑے ہونے سے پہلے ) یہ کلمہ دس دفعہ کہیں، چاروں رکعتیں اسی طرح پڑھیں اور اس ترتیب سے ہر رکعت میں یہ کلمہ پچھتر دفعہ کہیں۔ (میرے چچا) اگر آپ سے ہوسکے تو روزانہ یہ نماز پڑھا کریں اور اگر روزانہ نہ پڑھ سکیں تو ہر جمعہ کے دن پڑھ لیا کریں اور اگر ہر جمعہ کو نہ پڑھ سکیں تو مہینے میں ایک بار پڑھ لیا کریں اور اگر آپ یہ بھی نہ کر سکیں تو سال میں ایک دفعہ پڑھ لیا کریں اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو کم از کم زندگی میں ایک دفعہ پڑھ ہی لیں۔ [سنن ابو داود: ۱۲۹۷]
علامہ سیوطیؒ اور ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں کہ حافظ ابن حجرؒ نے اس حدیث کو ’حسن‘قرار دیا ہے اور فرمایا کہ اس حدیث کے راویوں میں کوئی حرج نہیں۔
[مرقاۃ: ۱۳۲۹، ۳؍۳۷۷؛اللآلی المصنوعہ: ۲؍۳۴]
امام ترمذیؒ نے حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ سے اس نماز کو پڑھنے کا ایک دوسرا طریقہ بھی نقل کیا ہے:
سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ کے بعد اَلْحَمْدُ سے پہلے پندرہ مرتبہ یہ کلمے پڑھے اور پھر ا اَلْحَمْدُ اور سورہ کے بعد دس مرتبہ پڑھے پھر رکوع میں دس مرتبہ پڑھے، پھر رکوع سے کھڑے ہوکر دس مرتبہ پڑھے، پھر دونوں سجدوں میں دس دس مرتبہ اور دونوں سجدوں کے درمیان دس مرتبہ یہ کلمے پڑھے۔ اسی طرح چار رکعتیں پڑھے۔ نیز عبد اللہ بن مبارکؒ سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ اس میں عام نمازوں کی طرح قرأت سے پہلے ثناء یعنی سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ اور رکوع میں پہلے سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْمِ اسی طرح دونوں سجدوں میں پہلے سُبْحَانَ رَبِّيَ الْاَعْليٰ پڑھے۔ [سنن ترمذی: ۴۸۱]
اس صورت میں نہ تو دوسرے سجدہ کے بعد بیٹھنے کی ضرورت ہے اور نہ التحیات کے ساتھ پڑھنے کی۔ علماء نے لکھا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ کبھی اس طرح پڑھ لیا کرے کبھی اُس طرح۔ [مرقاۃ: ۱۳۲۹، ۳؍۳۷۷]
No comments:
Post a Comment