Featured Post

بداية المتعلم: کلمے، دعائیں، وضو، غسل اور نماز

  Click here to read/download (PDF) بسم الله الرحمن الرحيم اسلام کے کلمے کلمۂ طیبہ لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُو ْ لُ ال...

Sunday, January 21, 2018

نماز وتر

نماز وتر

الحمد لله وكفى وسلام على عباده الذين اصطفى اما بعد:

(۱)   حضرت خارجہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے اور ہم سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور نماز تمہیں مزید عطا فرمائی ہے، وہ تمہارے لیے سُرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے (جن کو تم دنیا کی عزیز ترین دولت سمجھتے ہو) وہ نمازِ وتر ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کو تمہارے واسطے نمازِ عشاء کے بعد سے طلوعِ صبح صادق تک مقرر کیا ہے (یعنی وہ اس وسیع وقت کے ہر حصے میں پڑھی جا سکتی ہے۔ (سنن ترمذی: ۴۵۲، سنن ابو داود: ۱۴۱۸)

(۲) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ وتر (طاق)  ہے (یعنی اللہ اپنی ذات وصفات میں یکتا وتنہا ہے کہ اسکا کوئی مثل و شریک نہیں ہے)، وتر کو پسند کرتا ہے، لہذا اے اہل قرآن وتر پڑھو۔ (سنن ترمذی: ۴۵۳، سنن ابو داود: ۱۴۱۶)


(۳) حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کونین ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ، وتر حق ہے لہذا جو شخص وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے (یعنی ہمارے تابعداروں میں سے) نہیں ہے، وتر حق ہے لہذا جو شخص وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے، وتر حق ہے لہذا جو شخص وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔  (سنن ابوداود: ۱۴۱۹)

(۴) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: رات میں اپنی آخری نماز وتر کو بناؤ۔ (یعنی رات کی نمازوں میں تمہاری آخری نماز وتر ہو) (صحیح مسلم: ۱۷۵۵)

(۵) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کو یہ اندیشہ ہو کہ آخری رات میں وہ نہ اٹھ سکے گا (یعنی سوتا رہ جائے گا) تو اس کو چاہئے کہ رات کے شروع ہی میں (یعنی عشاء کے ساتھ ہی) وتر پڑھ لے، اور جس کو اس کی پوری امید ہو کہ وہ (تہجد کے لیے) آخرِ شب میں اُٹھ جائے گا تو اس کو چاہئے کہ وہ آخرِ شب ہی میں (یعنی تہجد کے بعد) وتر پڑھے، اسلئے کہ اُس وقت کی نماز میں ملائکہ رحمت حاضر ہوتے ہیں، اور وہ وقت بڑی فضیلت کا ہے۔ (صحیح مسلم: ۱۷۶۷)

(۶) حضر ت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ  راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رات کی نماز (تہجد)  دو دو رکعت ہے اور جب کسی کو صبح ہونے کا اندیشہ ہونے لگے تو ایک رکعت پڑھ  لے، یہ (ایک رکعت) پہلی پڑھی ہوئی نماز کو طاق (وتر)  کر دے گی۔ (صحیح بخاری: ۹۹۰، صحیح مسلم: ۱۷۴۸)

حضرت امام طحاویؒ ۳۲۱ھ) نے حدیث کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ’’ایک رکعت اس طرح پڑھے کہ اس سے پہلے دو رکعتیں پڑھ لے تاکہ یہ رکعت  اِس رکعت سے پہلے پڑھی گئی دونوں رکعتوں کو طاق کر دے‘‘۔(شرح معانی الآثار: کتاب الصلاۃ، باب الوتر ،۱۶۵۱، ج۱، ص۲۷۷) 

(۷) حضرت مسروقؒ تابعی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی نمازِ تہجد کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا  (کہ آپ کتنی رکعتیں پڑھتے تھے) تو انہوں نے فرمایا کہ : سات اور نو اور گیارہ، سنت فجر کی دو رکعتوں کے سوا۔ (صحیح بخاری:۱۱۳۹)

(۸) حضرت عبد اللہ بن ابی قبیسؒ تابعی سے روایت ہے کہ میں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کتنی رکعت وتر پڑھتے تھے؟ انھوں نے فرمایا کہ: چار اور تین، اور چھ اور تین، اور آٹھ اور تین، اور دس اور تین۔ اور سات رکعت سے کم اور تیرہ رکعت سے زیادہ وتر نہیں پڑھتے تھے۔ (سنن ابو داود: ۱۳۶۲)

(۹) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ تیرہ رکعت وتر پڑھا کر تے تھے پس جب آپ بوڑھے اور ضعیف ہو گئے تو سات رکعت وتر پڑھی۔ (سنن ترمذی: ۴۵۷)

حضرت امام ترمذیؒ ۲۷۹ھ) نے فرمایا کہ حضرت اسحاق بن ابراہیمؒ ۲۳۸ھ)  نے حدیث کا مطلب  یہ بیان کیا کہ رات کی نماز (تہجد) تیرہ رکعت مع وتروں کے پڑھتے تھے سو تہجد کی،  وتروں کی طرف نسبت کی گئی ہے۔(سنن ترمذی: ۴۵۷

(۱۰) حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمنؒ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک میں نماز (تہجد)  کس طرح پڑھتے تھے؟ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ رمضان ہو یا رمضان کے علاوہ آپ ﷺ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نماز نہیں پڑھتے تھے، چار رکعتیں تو اس طرح پڑھتے کہ ان کی خوبصورتی اور لمبائی کے بارے میں کچھ نہ پوچھ!پھر  چار رکعتیں تو اس طرح پڑھتے کہ ان کی خوبصورتی اور لمبائی کے بارے میں کچھ نہ پوچھ! پھر آپ ﷺ تین رکعت وتر پڑھتے۔ (صحیح مسلم: ۱۷۲۳،صحیح بخاری: ۱۱۴۷، سنن  نسائی:   ۱۶۹۸،    موطا امام مالک:۲۷۱  )

(۱۱) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں دو رکعتوں پر سلام نہیں پھیرتے تھے۔ (سنن نسائی: ۱۶۹۹) 

(۱۲) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ تین رکعت وتر پڑھتے تھے اور  صرف آخری رکعت میں سلام پھیرتے۔ یہی طریقہ وتر کا امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا تھا اور اہل مدینہ نے انہیں سے اس طریقہ کو اختیار کیا۔ (مستدرک حاکم: ۱۰۷۶، کتاب الوتر)

(۱۳) حضرت ابو الزنادؒ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ نے  فقہائے مدینہ کے فتوے کی بناء پر   وتر کوتین رکعت  صحیح قرار دیا جس میں صرف آخری رکعت میں سلام پھیرا جائے گا۔ (شرح معانی الآثار: کتاب الصلاۃ، باب الوتر ،۱۷۵۷، ج۱، ص۲۹۶) 

(۱۴) حضرت ابو الزنادؒ  فقہائے سبعہ (مدینہ طیبہ کے سات مشہور فقہائے کرام) سے روایت کرتے ہیں کہ وتر کا مسئلہ اسی طرح ہے کہ وتر تین رکعت ہے جس میں صرف آخری رکعت میں سلام پھیرا جائے گا۔
فقہائے سبعہ: سعید بن مسیبؒ، عروہ بن زبیرؒ، قاسم بن محمدؒ، ابو بکر بن عبد الرحمنؒ، خارجہ بن زیدؒ، عبید اللہ بن عبد اللہؒ، سلیمان بن یسارؒ۔
(شرح معانی الآثار: کتاب الصلاۃ، باب الوتر ،۱۷۵۸، ج۱، ص۲۹۶) 

(۱۵) حضرت انس ؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ، حضرت ابو امامہؓ، تابعی حضرت جابر بن زیدؒ، تابعی حضرت علقمہؒ، تابعی حضرت مکحولؒ، تابعی ابراہیم نخعیؒ سے بھی یہی بات مروی ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: کتاب الصلوات، کتاب صلاۃ التطوع، من کان یوتر بثلاث او اکثر)

(۱۶) حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نماز وتر میں یہ سورتیں پڑھتے تھے سبح اسم ربک الاعلی اور قل یا ایہا الکافرون اور قل ہو اللہ احد ہر ایک رکعت میں ان میں سے ایک سورت پڑھتے۔ (سنن ترمذی: ۴۶۲)

(۱۷) حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  رسول اللہ ﷺ تین رکعت وتر پڑھا کرتے تھے پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی اور دوسری رکعت میں قل یا ایہا الکافرون اور تیسری رکعت میں قل ھو اللہ احد تلاوت فرماتے اور رکوع سے پہلے دعائے  قنوت پڑھتے  پھر جب نماز سے فارغ ہوتے تو تین مرتبہ سبحان الملک القدوس پڑھتے تیسری مرتبہ ذرا کھینچ کر کہتے۔ (سنن نسائی: ۱۷۰۰)

(۱۸) حضرت محمد بن سیرینؒ سے روایت ہے کہ حضرت انس بن مالک  رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا نبی ﷺ نے فجر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھی ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں! پوچھا گیا کہ کیا رکوع سے پہلے دعائے قنوت پڑھی ہے؟ فرمایا کہ کچھ دنوں تک رکوع کے بعد پڑھی ہے۔ (صحیح بخاری: ۱۰۰۱، صحیح مسلم: ۱۵۴۶)

(۱۹)  حضرت عاصم احولؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے دعائے قنوت کے بارہ میں پوچھا کہ نماز میں وہ رکوع سے پہلے پڑھی جاتی تھی یا رکوع کے بعد؟ حضرت انسؓ نے فرمایا کہ رکوع سے پہلے میں نے عرض کیا کہ کچھ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رکوع کے بعد قنوت پڑھی ہے تو حضرت انسؓ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ نے رکوع کے بعد دعائے قنوت صرف ایک مہینہ پڑھی تھی (اور وہ بھی) اس لیے کہ آنحضرت ﷺ نے ان لوگوں کے خلاف بد دعا فرمائی جنہوں نے صحابہ کرام میں سے ان لوگوں کو شہید کردیا تھا کہ جن کو قراّء کہا جاتا تھا۔ (صحیح مسلم: ۱۵۴۹، صحیح بخاری: ۱۰۰۲)

(۲۰) حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے چند کلمے تعلیم فرمائے جن کو میں قنوت وتر میں پڑھتا ہوں :
اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ إِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ، وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ.
(سنن نسائی: ۱۷۴۶، سنن ترمذی: ۴۶۴)

حضرت امام ترمذی ؒ نے فرمایا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کا یہ مسلک ہے کہ رکوع سے پہلے  وتروں میں سال بھر دعائے قنوت پڑھنا چاہئےاور یہی قول ہے بعض اہل علم حضرات کااور یہی فرمایا حضرت سفیان ثوری ؒ ، حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ، حضرت اسحاق بن راہوے اور (علماء) اہل  کوفہ نے۔ (سنن ترمذی: ۴۶۴)

(۲۱) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے وتر کے آخر میں یہ دعا کیا کرتے تھے:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ، وَأَعُوذُ بِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ. (سنن نسائی: ۱۷۴۸، سنن ترمذی: ۳۵۶۶، سنن ابو داود: ۱۴۲۷)

(۲۲) حضرت خالد ابن ابی عمرانؒ سے روایت ہے کہ حضرت جبرئیلؑ نے نبی ﷺ کو یہ قنوت سکھایا:
اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ، وَنَسْتَغْفِرُكَ، وَنُؤْمِنُ بِكَ، وَنَخْضَعُ لَكَ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَكْفُرُكَ، اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ، نَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنَخَافُ عَذَابَكَ الْجَدَّ، إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكُفَّارِ مُلْحِقٌ (مراسیل ابو داود: ۸۹، الدعوات الکبیر امام بیہقی: ۳۶۲) 

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين [i]
شمس تبریز
خادم الافتاء ،
 محکمہ شرعیہ،بمبئی،
۴
۱؍جمادی الاولی ۱۴۳۹ ھ
۱۹؍۱؍۱۸ء


کتابیات:
(۱)  موطا مالک: امام مالک بن انسؒ (م۱۷۹ھ)، (۲) مصنف ابن ابی شیبہ: امام ابو بکر بن ابی شیبہؒ (م ۲۳۵ھ)، (۳) صحیح بخاری:امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ (م ۲۵۶ھ) ، (۴) صحیح مسلم: امام مسلم بن حجاجؒ (م۲۶۱ھ) (۵) سنن ابو داود: امام ابو داود سجستانیؒ (م۲۷۵ھ)، (۶) مراسیل ابو داود: امام ابو داود سجستانیؒ (م۲۷۵ھ)، (۷) سنن ترمذی: امام محمد بن عیسی ترمذیؒ (م۲۷۹ھ)، (۸) سنن نسائی: امام ابو عبد الرحمن نسائیؒ (م۳۰۳ھ)، (۹) شرح معانی الآثار: امام ابو جعفر طحاویؒ، (م۳۲۱ھ)، (۱۰) مستدرک حاکم: امام محمد بن عبدالله حاکم نیشاپوریؒ (م۴۰۵ھ) (۱۱) الدعوات الکبیر: امام احمد بن حسین بیہقی (م۴۵۸ھ)

No comments:

Post a Comment