روزہ اور تقویٰ
حضرت مولانا اسرار احمد قاسمیؒ
لیجئے رمضان المبارک پیارہ مہینہ رخصت ہوا تراویح کی لمبی لمبی قطاریں شب بیداریاں، تہجد گذاریاں، تسبیح وتہلیل سے معمور راتیں جا چکیں، نہ وہ جھمیلے ہیں اور نہ وہ مقدس چہل پہل ہے۔ کیا روزہ اور رمضان کی غرض وغایت صرف یہیں تک محدود تھی؟ نہیں نہیں ایسا ہر گز نہیں بلکہ اسلام نے اور قرآن عزیز نے روزہ کا مقصد روزہ کی غرض روزہ کا نتیجہ تقویٰ بتایا ہے، دوسرے معنی میں روزہ ایک ایسی انقلابی عبادت ہے جس سے ایک مؤمن کی زندگی کے دھارے مُنقلِب ہو جاتے ہیں، زندگی ایک زبردست انقلاب سے ٹکراتی ہے۔ اگر تمام شرعی قوانین کی رعایت کے مطابق تم نے یہ ماہ مقدس تمام کیا ہے تو یقین جانئے تمہاری رگ رگ میں خشیت الہی، ریشے ریشے میں خوف خدا، خون کے ہر ہر قطرہ میں اللہ کی یاد اس کی عظمت ومحبت جلوہ گر ہو چکی ہے، یقینا روزہ مؤمن کو ایک ایسی شاہراہ پر ڈال دیتا ہے کہ جس سے ایک بندۂ خدا عبدیت کے حقیقی مَدارِج طے کر لیتا ہے اسے زندگی کی حقیقی معراج نصیب ہوتی ہے، سرمایہ زندگی ملتا ہے یہ وہ دائمی دولت اور لا زوال نعمت ہے جسکی بدولت ایک انسان کائنات ہست وبود میں ممتاز ہو جاتا ہے قرآن عزیز کا لفظ کتنا پیارا ہے کہ روزہ کا بدل تقویٰ ہے، ہمارا مقصد اس لفظ کی تشریح نہیں صرف اتنا بتائے دیتے ہیں کہ تقویٰ کے بعد ایک انسان کا مرتبہ کتنا عظیم ہو جاتا ہے مختلف طریق سے کتب احادیث میں یہ روایت بہت سی جگہ موجود ہے اور اِزالۃ الخفا صفحہ ۲۴۸ پر حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ روایت یوں نقل فرمائی ہے یوم الجبل میں آنحضرت ﷺ اور چند صحابہ کسی پہاڑ پر چڑھے وہ پہاڑ لرزنے لگا حضرت عثمان غنیؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے اپنا پائے مبارک پہاڑ پر مارتے ہوئے فرمایا اُسکُن اے پہاڑ تو ٹھہر جا، ساکن ہو جا، کیونکہ تیری پشت پر صرف ایک نبی ، ایک صدیق اور شہید ہیں، اس روایت سے معلوم ہوا کہ پہاڑ جیسی مستحکم فولادی جسامت لرزنے لگی۔ اس کے لرزنے کی وجہ یقینا یہ سمجھ میں آتی ہے کہ: