Featured Post

بداية المتعلم: کلمے، دعائیں، وضو، غسل اور نماز

  Click here to read/download (PDF) بسم الله الرحمن الرحيم اسلام کے کلمے کلمۂ طیبہ لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُو ْ لُ ال...

Wednesday, September 7, 2022

تذکرہ: حضرت مخدوم علی ماہمیؒ Hazrat Makhdoom Ali Mahimi RA

 

حضرت مخدوم علاء الدین علی مہائمیؒ

(مؤرخ اسلام حضرت مولانا قاضی اطہر مبارک پوریؒ[1])

جنوبی ہند علم وفضل اور دین و دنیا میں ہمیشہ سے مشہور رہا ہے اور یہاں بڑے بڑے فضلائے روزگار پیدا ہوئے ہیں۔ خود بمبئی کے اطراف میں جبکہ بمبئی کا نام و نشان بھی نہ تھاعلمائے اسلام اور بزرگان دین رہا کرتے تھے اور ان کے علمی اور دینی تعلقات ساحلی مقام ہونے کی وجہ سے ممالک اسلامیہ اور حجاز پاک سے رہا کرتے تھے۔ شاہانِ گجرات، شاہانِ بہمنی دکن، شاہانِ عادل شاہی، شاہانِ نظام الملکی کے زمانے میں گویا یہ علاقہ حجاز کا ایک تکڑا تھا، جس میں علم و فضل کے اعاظم رجال موجود تھے اس سلسلہ میں جنوبی ہند کو بعض ایسی خصوصیات  حاصل ہیں جو شمالی ہند کو حاصل نہیں ہیں۔

خصوصیت سے گجرات سے لیکر مالابار اور ۔۔۔ کے ساحلی علاقوں  میں اسلامی زندگی کے جو کارواں گزر چکے ہیں ان کا جواب نہیں ہے، مگر افسوس کہ مسلمانوں کی بدمذاقی  اور اپنی روایات کی طرف سے لاپروائی  نے اس کاروانِ رفتہ کے نشان بھی مٹا دیئے اور آج ان اطراف کے مسلمان یہ نہیں جانتے کہ ان کا ماضی اس سر زمین میں کس قدر تابناک اور شاندار تھا، اور یہاں انہوں نے کس قسم کی روایات قائم کی ہیں۔

آج کی مجلس میں ہم اس دیار اور اس دور کے ایک عالِم دین ولی کامل ا ور شیخ وقت کا تذکرہ سنا رہے ہیں، جو اسی شہر بمبئی کے ایک محلہ میں آسودہ خواب ہیں اور آج بھی دنیا ان کے علمی اور روحانی فیض سے بہرہ مند ہو رہی ہے۔

حضرت مخدوم عماد الدین شیخ علی بن احمد نوائتی ماہمی رحمۃ اللہ علیہ بمبئی کے قریب ایک جزیرہ مہائم و ماہم میں آٹھویں صدی ہجری[2] میں پیدا ہوئے، آپ قوم نوائت سے تعلق رکھتے تھے، یعنی آپ کے آباء و اجداد اُن عربی دیار کے لوگوں میں تھے جو بحری تجارت یا بحری حرفت کے سلسلے میں ہندوستان آئے اور اس کے ساحلی مقامات پر آباد ہو گئے۔ [3]اس زمانہ میں مہائم پر شاہانِ گجرات  کا قبضہ تھا اور یہاں پر ان کا گورنر رہا کرتا تھا،[4] اس کے آس پاس مسلمانوں کی آبادیاں تھیں اور وہ علوم دین اور خود دین سے پوری طرح آراستہ تھےمہائم کی بندرگاہ سے مکہ، عدن،  اور یمن وغیرہ جہاز جاتے تھے اور آتے تھے۔

حضرت مخدوم علی مہائمیؒ کے بارے میں یہ معلوم نہیں کہ وہ کن کن علمائے دین کے شاگرد تھے اور کس بزرگ کے مرید تھے[5] اور انہوں نے اپنی زندگی کیسے گزاری، مگر آپ کی کتابیں بتا رہی ہیں کہ آپ اپنے وقت کے ابن العربیؒ [6]اور شاہ ولی اللہ دہلویؒ [7]تھے۔

آپ کی تصانیف دیکھنے سے آپ کی جلالتِ شان کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے، اگر آپ کسی دوسرے علاقہ میں ہوتے یا کسی دوسری قوم میں پیدا ہوتے تو نہیں معلوم آپ پر کتنی کتابیں لکھی جا چکی ہوتیں، آپ نے قرآن مجید کی ایک تفسیر دو جلدوں میں لکھی ہے، جو مصر میں چھپ چکی ہے[8]، اس کا نام’’ تبصیر الرحمن و تیسیر المنان‘‘[9] ہے۔ اس تفسیر کی امتیازی شان یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیات میں ربط کو نہایت دلنشیں انداز میں بیان کیا گیا ہے اور مطالعہ کرنے والا خوشی اور اطمینان سے معمور ہو جاتا ہے۔

آپ کی دوسری کتاب ’’انعام الملک العلام‘‘ہے، یہ کتاب اسرار شریعت کے بیان میں ہے[10]، حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ اپنے زمانہ میں لکھی ہے، جو ہر طرح سے اپنے موضوع پر اول و آخر کتاب ہے، مگر اس سے پہلے خود مخدوم علی مہائمیؒ نے ’’انعام الملک العلام‘‘ اس موضوع پر تصنیف فرمائی تھی، افسوس ہے کہ اس اہم  اور مفید کتاب کا دنیا میں کہیں وجود نہیں ہے، شاید کسی کتب خانہ میں اس کا کوئی قلمی نسخہ زمانہ کی دست برد سے محفوظ رہ گیا ہو۔

آپ کی تصنیفات میں ’’استجلاء البصر فی الرد علی استقصاء النظر لابن مطہر الحلی‘‘[11] اور ’’النور الاظہر فی کشف القضا والقدر‘‘[12]۔ اس کی شرح الفصوص الازہر فی شرح نور الاظہر [13]اور مشرّع الخصوص  فی شرح الفصوص لابن العربی ہے[14] ، اس کتاب میں آپ نے حضر ت محی الدین ابن العربی کی مشہور عالم کتاب فصوص الحکم کی شرح لکھی ہے[15]، اس کی دو شرحیں آپ نے لکھی ہیں ایک عربی میں ایک فارسی میں اور حضرت شیخ شہاب الدین سہروردیؒ کی مشہور کتاب عوارف  المعارف کی شرح ’’الزوارف‘‘ [16]بھی آپ نے لکھی ہے اورا جلۃ التائید فی شرح ادلۃ التوحید[17] بھی آپ کی تصنیف ہے۔

اس کے علاوہ فقہ شافعی میں آپ کا ایک رسالہ ہے جس کا ترجمہ اردو زبان  میں ہو چکا ہے اور بمبئی اور اطراف بمبئی میں شوافع حضرات اسے پڑھتے اور پڑھاتے ہیں۔[18]

آپ زہد وتصوف میں شیخ ابن العربیؒ کے ہم مشرب تھے اور ان کے نظریات کے بڑی سختی سے موئد تھے، چنانچہ ایک مرتبہ معلوم ہوا کہ یمن میں کسی عالم نے ابن العربی کی رد میں کوئی کتاب لکھی ہے [19]اور وہ ابن العربی کے خیالات کا سختی سے رد کرتا ہے، تو اس عالم سے اس بارے میں تبادلہ خیالات کرنے کے لیے آپ مہائم کی بندرگاہ سے سوار ہو کر یمن گئے اور اس عالم سے تبادلۂ خیالات فرمایا،[20] آپ کی علمی مرکزیت اور شہرت گجرات اور دوسرے علاقوں میں مسلم تھی، اور بڑے بڑے علماء آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے، چنانچہ سلاطین گجرات کے زمانہ میں علوم ادبیہ کے مشہور امام علامہ بدر الدین محمد ابن ابی بکر دمامینی[21] ۸۰۰ ھ میں گجرات آئے ، برسوں احمد آباد میں درس و تدریس کا کام کیا،  اور پھر تسہیل ابن مالک[22] کی مشہور شرح لکھی[23]، اسی زمانہ میں علامہ دمامینیؒ  حضرت مخدومؒ مہائم کی خدمت میں آئے اور بہت دنوں تک مہائم میں مقیم رہ کر اپنی شرح کی تکمیل فرمائی۔

حضرت مخدوم علی مہائمی رحمۃ اللہ نے ۸۳۵ھ میں مہائم میں وفات پائی وہیں  مدفون ہوئے، آج بھی آپ کا مزار فیض بار ماہم میں موجود ہے اور جب ہندوستان کے بڑے بڑے علماء بمبئی آتے ہیں، تو آپ کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔
آپ کا تذکرہ مولانا غلام علی آزاد [24]نے سبحۃ المرجان فی آثار الہندوستان اور ماثر الکرام میں لکھا ہے، مولانا عبد الحئی[25] نے بھی یاد آیام میں ان کا مختصر حال لکھا ہے، نیز آفتاب کوکن کے نام سے ایک مستقل رسالہ آپ کی حیات پر موجود ہے۔[26]

افسوس ہے کہ آج ہندوستان کے عوام اور خواص حضرت مہائمیؒ کے فضل و کمال سے ناواقف ہیں، ان کی کتابیں بہت کم لوگوں کو معلوم ہیں۔

اگر کسی دوسرے ملک میں اتنا بڑا فاضل انسان پیدا ہوا ہوتا تو آج اس کے علم و فضل کی نشر و اشاعت اور اسکی کتابوں کے طبع و ترجمہ کے لیے ایک سوسائٹی قائم ہوتی اور اس کے ذریعہ وہ ملک اپنے اس بڑے انسان سے فیض پاتا، یہاں تو فیض کا مفہوم صرف قبر پرستی رہ گیا۔



[1]  مولانا قاضی اطہر مبارکپوریؒ(۱۹۱۶ء ۔ ۱۹۹۶ء): محقق، مؤرخ ، ادیب، نامہ نگار۔  آپؒ کا علمی تبحر اہل علم کے نزدیک مقبول و معروف ہے۔آپؒ ’’رجال السندھ والہند‘‘، ’’عرب وہند عہد رسالت میں‘‘، ’’خیر القرون کی درسگاہیں‘‘، ’’تدوین سیر ومغازی‘‘ وغیرہ جیسی کئی مشہور کتابوں کے مصنف ہیں۔

[2]  ۷۷۶ھ م۱۳۷۲ء (نزھۃ الخواطر از مولانا سید عبد الحئ رائےبریلویؒ، مخدوم علی مہائمیؒ از مولانا عبد الرحمن پرواز اصلاحی)

[3]  یہ لوگ چونکہ کشتیوں میں بیٹھ کر آئے تھے اس لئے انہیں صاحب قاموس مجد الدین فیروزآبادی نے نواتی کے معنی ملاح قرار دیئے ہیں۔ مگر عام علمائے نوائت کا خیال ہے کہ نوائت عرب کے مشہور اور شریف ترین قبیلہ قریش کی ایک شاخ ہیں۔ (ماخوذ ازمخدوم علی مہائمیؒ مؤلفہ مولانا عبد الرحمن پرواز اصلاحی)

[4] سلطان احمد شاہ (م۱۴۴۲ء) ، محمد شاہ ثانی (م۱۴۵۱ء)،قطب الدین احمد شاہ (م۱۴۵۸ء) محمود بیگڑہ (م۱۵۱۱ء)، مظفر حلیم (م۱۵۲۵ء) سکندر شاہ (م۱۵۲۶ء)، بہادر شاہ (م۱۵۳۷ء)  تک بالترتیب ماہم شاہانِ گجرات کے ما تحت رہا۔ (ایضا)

[5]  اکثر اکابر تذکرہ نگار حضرت مخدوم علی مہائمیؒ کے اساتذہ و مشائخ کے ذکر سے خاموش ہیں لیکن مولانا عبد الرحمن پرواز اصلاحی صاحب  ’’مخدوم علی مہائمی‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’آپ ؒ کے ولد مولانا شیخ احمد نے آپؒ کی تعلیم وتربیت   فرمائی نیز مشہور روایت ہے کہ خضر علیہ السلام نے بھی آپ کی تربیت میں بڑا حصہ لیا۔‘‘ واللہ اعلم بالصواب۔

[6] محی الدین محمد  بن علی طائی اندلسیؒ (متوفی: ۶۳۸ھ م ۱۲۴۰ء) ؛   شیخ اکبر ابن العربی کے نام سے  مشہور ہیں، ممتاز  عالم ،مفکر، متکلم، صوفی، شاعر متعدد کتابوں کے مصنف جن میں فصوص الحکم اور فتوحات مکیہ بہت مشہور ہیں۔ آپ ؒ کے بعض نظریات پر بعض اہل علم نے تنقید کی ہے۔

[7]  شاہ ولی اللہ بن شاہ عبد الرحیم دہلویؒ (متوفی: ۱۱۷۶ھ م ۱۷۶۲ء) ؛ مسندِ علمائے ہند، فقیہ  مدرس محدث کبیر، کئی ایک مایہ ناز کتابوں کے مصنف ہیں۔ اپنے والد بزرگوار سے تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے بعد حرمین شریفین تشریف لے گئے اور وہاں علماء  سے استفادہ کیا۔ شیخ ابو طاہر کردیؒ سے مسجد نبوی ﷺ میں بخاری شریف وغیرہ حدیث کی کتابیں پڑھیں اور  اجازت حدیث حاصل کی ان کے علاوہ دیگر علمائے حرمین سے بھی اجازت حدیث حاصل کرکے ہندوستان لوٹے اور یہاں علوم حدیث کی ترویج و اشاعت میں ممتاز خدمات انجام دیں۔

[8]  اس تفسیر کو مولانا محمد جمال الدین دہلوی مدار المہام ریاست بھوپال نے ذرِ کثیر صرف کر کے نہایت اہتمام سے مطبع بولاق مصر سے چھپوایا۔ یہ تفسیر دو جلدوں میں ہےاور اس پر تقریظیں مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، مولانا محمد حسین دہلوی اور مصری فاضل محمد البیسیونی البیبانی کے قلم سے ہے۔ سنہ طباعت ۱۲۹۵ھ ہے۔ (مخدوم علی مہائمیؒ از مولانا عبد الرحمن پرواز اصلاحی)

[9]  تبصیر الرحمن و تیسیر المنان بعض ما یشیر الی اعجاز القرآن، سنہ تصنیف ۸۳۱ھ ہے۔ شاہ گجرات سلطان احمد شاہ  کے زمانہ میں یہ تفسیر لکھی گئی ہے۔  (ایضا)

[10]  انعام الملک العلّام باحکام حکم الاحکام۔ مولانا  سید عبد الحی رائے بریلوی ’’یاد ایام‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’گمان غالب ہے کہ اس فن میں سب سے پہلی تصنیف ہے‘‘ (ایضا)

[11]  یہ کتاب شیعی عالم ابن مطہر الحلی کے جواب میں لکھی گئی ہے۔  (مخدوم علی مہائمیؒ از مولانا عبد الرحمن پرواز اصلاحی)

[12]  النور الازھر فی کشف سر القضاء والقدر: اس رسالہ میں شیخ اکبرابن عربیؒ  کے نزدیک قضا و قدر سے متعلق نقطہ نظر کی حضرت مخدوم صاحب مہائمیؒ نے عقلی و نقلی دلائل کی روشنی میں مزید توضیح کی ہے۔ (ایضا)

[13]  الضوء الاظہر فی شرح النور الازھر: قضا و قدر والے رسالے کی شرح ہے لیکن نسخہ ناقص ہے، مطبوعہ نسخہ جامع مسجد بمبئی کے کتب خانہ محمدیہ میں موجود ہے۔  (ایضا)

[14]  شیخ صدر الدین قونویؒ متوفی ۶۷۱ھ کی کتاب ’’فصوص ‘‘ [فكوك النصوص] کی شرح ہے۔ شیخ قونویؒ  شیخ اکبر ابن عربیؒ کے تربیت یافتہ  بزرگ کامل تھے ،اپنی کتاب میں شیخ اکبرؒ کی تمام تعلیمات کا خلاصہ پیش کیا ہے اور شرح مذکور کی تالیف سنہ ۸۳۰ھ میں ہوئی۔ (ایضا)

[15]  شیخ محی الدین ابن عربی کی ’’فصوص الحکم‘‘ کی شرح ’’خصوص النعم فی شرح فصوص الحکم‘‘ کے نام سے لکھی ، آپ نے ’’فصوص الحکم‘‘ کی دو شرحیں لکھیں اور تیسری شرح کا بھی کچھ حصہ تحریر فرمایا تھا۔ اس شرح کا ایک عمدہ قلمی نسخہ دار العلوم دیوبند کے کتب خانہ میں ہے۔  (ایضا) 

[16]  زوارف اللطائف فی شرح عوارف المعارف: اس شرح کا ایک قلمی نسخہ کتب خانہ محمدیہ جامع مسجد بمبئی میں موجود ہے۔ دیگر مخطوطات حیدر آباد، رام پور اور بانکی پور پٹنہ کے کتب خانوں میں محفوظ ہیں۔  (ایضا)

[17]  شیخ اکبر ابن العربیؒ کے نظریہ توحید کے اثبات میں ’’ادلۃ التوحید‘‘ایک رسالہ تصنیف فرمایا  تھا، بعد میں آپ نے ’’ادلۃ التائید فی شرح ادلۃ التوحید‘‘ کے نام سے اس کی شرح لکھی۔ اس کتاب کو مولوی محمد یوسف کھٹکھٹے صاحب کشف المکتوم من حالات الفقیہ المخدوم نے مطبع شہابی بمبئی میں چھپوایا اور مطبوعہ کتاب جامع مسجد بمبئی کے کتب خانہ محمدیہ میں موجود ہے۔ (ایضا)

[18]  فقہ مخدومی: فقہ شافعی کی یہ کتاب آپ ہی کی طرف منسوب کی جاتی ہے لیکن زبان و بیان کا جو معیار مخدوم صاحب کی دوسری کتابوں میں پایا جاتا ہے اس میں مفقود ہے۔ (ایضا)

[19]  شیخ اسمعٰیل مقری نے ’’الذریعہ الی نصرۃ الشریعۃ‘‘ شیخ ابن العربیؒ کے رد میں لکھی تھی۔ (مخدوم علی مہائمیؒ از مولانا عبد الرحمن پرواز اصلاحی)

[20]  حضرت مخدوم علی مہائمیؒ نے شیخ ابن العربیؒ پر کئے گئے اعتراضات کے جواب میں ’’الرتبۃ الرفیعۃ فی الجمع والتوفیق بین اسرار الحقیقۃ وانوار الشریعۃ‘‘ کتاب تحریر فرمائی۔ اس کتاب کا قلمی نسخہ جو مخدوم صاحبؒ کی حیات میں لکھا گیا ہے یعنی ۸۲۲ھ کا درگاہ پیر محمد شاہ کی لائبریری احمدآباد میں موجود ہے۔ اسمعٰیل مقری کی کتاب جس کے جواب میں یہ کتاب لکھی گئی سرخ روشنائی سے بطور متن کے کتابت کی گئی ہے اور مخدوم صاحب کی جوابی کتاب کو سیاہ روشنائی سے اس کے نیچے بطور شرح کے لکھا گیا ہے۔ (ایضا)

[21]  علامہ دَمامینیؒ  شاعر، ادیب، نحوی اور فقیہ مصری عالم  جو ہندوستان میں مقیم ہو گئے تھے ، گلبرگہ میں وفات پائی تاریخ وفات  ۸۲۷ھ یا  ۸۲۸ھ ہے۔  (نزھۃ الخواطر، معجم المؤلفین)

[22]  تسہیل الفوائد وتکمیل المقاصد مشہور نحوی و لغوی ابن مالک طائی(متوفی ۶۷۲ھ)  کاعلم نحو پر ایک رسالہ ہے۔ (معجم المؤلفین  ازعمر رضا کحالہ)

[23]  اس شرح کا نام ’’تعلیق الفرائد علی تسہیل الفوائد‘‘ ہے۔ (نزھۃ الخواطر، معجم المؤلفین)

[24]  مولانا غلام علی آزادبلگرامیؒ (متوفی: ۱۲۰۰ھ)؛   شاعر، مؤرخ اور تذکرہ نگار،مدینہ منورہ  جاکر  شیخ محمد حیات سندھیؒ سے صحاح ستہ کی اجازت لے کر ہندوستان واپس آئے اور نظام الدولہ ناصر جنگ ابن نواب نظام الملک آصف جاہ حیدرآبادی کی مصاحبت میں داخل ہوئے، آپ کی کئی عربی اور فارسی تصنیفات مشہور ہیں۔(تذکرہ علمائے  ہند از مولانا رحمٰن علی)

[25] مولانا سید عبد الحئ صاحب رائے بریلویؒ (متوفی:۱۳۴۱ھ م ۱۹۲۳ء)؛ ادیب، مؤرخ، مصنف کتب کثیر، سابق ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ اور والد گرامی حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ ۔

[26] علاوہ ازیں شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ (م۱۰۵۲ھ) نے ’’اخبار الاخیار‘‘ میں، مولانا رحمٰن علیؒ (م۱۲۸۱ھ) نے ’’تذکرہ علمائے ہند‘‘ میں، نواب صدیق حسن خان قنوجی بھوپالیؒ  (م۱۳۰۷ھ) نے ’’ابجد العلوم‘‘ میں اور مولانا سید عبد الحی رائے بریلویؒ نے ’’نزھۃ الخواطر‘‘ میں آپ کا ذکر خیر فرمایا ہے نیز آپکے تفصیلی حالات پر مشتمل’’کشف المکتوم من حالات الفقیہ المخدوم‘‘ ازمولوی محمد یوسف کھٹکھٹے   اور  ’’مخدوم علی مہائمی‘‘ از مولانا عبد الرحمٰن پرواز اصلاحی،  نام سے مستقل کتابیں بھی موجود ہیں۔ 


No comments:

Post a Comment