پردہ کے احکام
الحمد لله وكفى وسلام على
عباده الذين اصطفى أما بعد:
۱۔ عورت اپنے گھر کے اندر رہے اور بلا ضرورت گھر سے باہر نہ
نکلے:
{ وَقَرۡنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ ٱلۡجَٰهِلِيَّةِ ٱلۡأُولَىٰۖ } الأحزاب: ٣٣
اور اپنے گھروں میں قرار کے ساتھ
رہو، اور (غیر مردوں کو) بناؤ سنگھار دِکھاتی نہ پھرو، جیسا کہ پہلی جاہلیت میں
دِکھایا جاتا تھا۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:الْمَرْأَةُ عَوْرَةٌ فَإِذَا
خَرَجَتِ اسْتَشْرَفَهَا الشَّيْطَانُ وقال أبو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب (سنن الترمذي: 1173)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ
تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: عورت چھپانے کی چیز ہے،
جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک جھانک میں لگ جاتا ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: " صَلَاةُ الْمَرْأَةِ فِي
بَيْتِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا فِي حُجْرَتِهَا، وَصَلَاتُهَا فِي
مَخْدَعِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا فِي بَيْتِهَا (سنن أبي داود: 570)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ
تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: عورت کا اپنے گھر کی
اندرونی کوٹھری میں نماز پڑھنا گھر کے اندر نماز پڑھنے سے افضل ہے اور اندرون گھر
میں نماز پڑھنا صحن میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " خَرَجَتْ سَوْدَةُ
بَعْدَمَا ضُرِبَ الْحِجَابُ لِحَاجَتِهَا، وَكَانَتِ امْرَأَةً جَسِيمَةً لَا
تَخْفَى عَلَى مَنْ يَعْرِفُهَا، فَرَآهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: يَا
سَوْدَةُ، أَمَا وَاللَّهِ مَا تَخْفَيْنَ عَلَيْنَا، فَانْظُرِي كَيْفَ
تَخْرُجِينَ؟ قَالَتْ: فَانْكَفَأَتْ رَاجِعَةً وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي بَيتِي وَإِنَّهُ لَيَتَعَشَّى، وَفِي
يَدِهِ عَرْقٌ، فَدَخَلَتْ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي خَرَجْتُ
لِبَعْضِ حَاجَتِي، فَقَالَ لِي عُمَرُ: كَذَا وكَذَا، قَالَتْ: فَأَوْحَى اللَّهُ
إِلَيْهِ، ثُمَّ رُفِعَ عَنْهُ وَإِنَّ الْعَرْقَ فِي يَدِهِ مَا وَضَعَهُ،
فَقَالَ: " إِنَّهُ قَدْ أُذِنَ لَكُنَّ أَنْ تَخْرُجْنَ لِحَاجَتِكُنَّ (صحيح البخاري: 4795)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے
روایت ہے، فرماتی ہیں کہ پردہ کے احکام نازل ہو جانے کے بعد حضرت سودہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہا قضاء حاجت کے لئے گھر سے باہر نکلیں، چونکہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہا جسیم تھیں اور عام خواتین کے مقابلے میں دراز قد تھیں، اس لئے جو لوگ آپ کو
پہچانتے تھے ان سے آپ مخفی نہیں رہ سکتی تھیں، چنانچہ جب آپ باہر نکلیں تو حضرت
عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو دیکھا اور فرمایا کہ اے سودہ! اللہ کی
قسم، تم ہم پر مخفی نہیں رہ سکتیں، لہذا سوچ لو تم کیسے نکلوگی۔ حضرت عائشہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت عمر رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کے یہ الفاظ سن کر واپس لوٹیں، حضور اقدس ﷺ اس وقت میرے گھر میں تھے
اور اس وقت آپ ﷺ شام کا کھانا تناول فرما رہے تھے اور آپ ﷺ کے ہاتھ میں گوشت
والی ہڈی تھی، حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا گھر میں داخل ہوئیں اور عرض کیا کہ
یا رسول اللہ ﷺ! میں گھر سے نکلی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے ایسا ایسا کہا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سےحضور اقدس ﷺ
پر وحی نازل ہونی شروع ہو گئی، پھر وحی کا سلسلہ بند ہو گیا اور وہ ہڈی اب تک
حضوراقدس ﷺ کے ہاتھ میں تھی اور آپ ﷺ نے اس کو ابھی تک نہیں رکھا تھا۔ پھر حضور
اقدس ﷺ نے فرمایا کہ تم سب عورتوں کو حاجت کے لئے گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت
دیدی گئی ہے۔
۲۔ خواتین غیر
مردوں سے پردہ کریں:
{وَإِذَا سَأَلۡتُمُوهُنَّ مَتَٰعٗا فَسۡـَٔلُوهُنَّ مِن وَرَآءِ حِجَابٖۚ ذَٰلِكُمۡ أَطۡهَرُ لِقُلُوبِكُمۡ وَقُلُوبِهِنَّۚ} الأحزاب: ٥٣
اور جب تمہیں نبی کی بیویوں سے کچھ
مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔ یہ طریقہ تمہارے دلوں کو بھی اور اُن کے
دلوں کو بھی زیادہ پاکیزہ رکھنے کا ذریعہ ہوگا۔
{لَّا جُنَاحَ عَلَيۡهِنَّ فِيٓ ءَابَآئِهِنَّ وَلَآ أَبۡنَآئِهِنَّ وَلَآ إِخۡوَٰنِهِنَّ وَلَآ أَبۡنَآءِ إِخۡوَٰنِهِنَّ وَلَآ أَبۡنَآءِ أَخَوَٰتِهِنَّ وَلَا نِسَآئِهِنَّ وَلَا مَا مَلَكَتۡ أَيۡمَٰنُهُنَّۗ وَٱتَّقِينَ ٱللَّهَۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيۡءٖ شَهِيدًا } الأحزاب: ٥٥
نبی کی بیویوں کے لئے اپنے باپ (کے
سامنے بے پردہ آنے) میں کوئی گناہ نہیں ہے، نہ اپنے بیٹوں کے، نہ اپنے بھائوں کے،
نہ اپنے بھتیجوں کے، نہ اپنے بھانجوں کے اور نہ اپنی عورتوں کے، اور نہ اپنی
کنیزوں کے (سامنے آنے میں کوئی گناہ ہے۔)
{وَلَا يُبۡدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوۡ ءَابَآئِهِنَّ أَوۡ ءَابَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوۡ أَبۡنَآئِهِنَّ أَوۡ أَبۡنَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوۡ إِخۡوَٰنِهِنَّ أَوۡ بَنِيٓ إِخۡوَٰنِهِنَّ أَوۡ بَنِيٓ أَخَوَٰتِهِنَّ أَوۡ نِسَآئِهِنَّ أَوۡ مَا مَلَكَتۡ أَيۡمَٰنُهُنَّ أَوِ ٱلتَّٰبِعِينَ غَيۡرِ أُوْلِي ٱلۡإِرۡبَةِ مِنَ ٱلرِّجَالِ أَوِ ٱلطِّفۡلِ ٱلَّذِينَ لَمۡ يَظۡهَرُواْ عَلَىٰ عَوۡرَٰتِ ٱلنِّسَآءِۖ } النور: ٣١
اور (مؤمن عورتیں) اپنی سجاوٹ اور کسی پر ظاہر نہ
کریں، سوائے اپنے شوہروں کے، یا اپنے باپ، یا اپنے شوہروں کے باپ کے، یا اپنے
بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں، یا
اپنی بہنوں کے بیٹوں کے، یا اپنی عورتوں کے، یا اپنی کنیزوں کے، یا اُن خدمت
گذاروں کے جن کے دل میں کوئی (جنسی) تقاضا نہیں ہوتا، یا ان بچوں کے جو ابھی
عورتوں کے چھپے ہوئے حصوں سے آشنا نہیں ہوئے۔
عن قيس بن شماس رضي الله عنه قَالَ:
جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ يُقَالُ لَهَا أُمُّ خَلَّادٍ وَهِيَ
مُنْتَقِبَةٌ تَسْأَلُ عَنِ ابْنِهَا وَهُوَ مَقْتُولٌ، فَقَالَ لَهَا بَعْضُ
أَصْحَابِ النَّبِيِّﷺ:
جِئْتِ تَسْأَلِينَ عَنِ ابْنِكِ وَأَنْتِ مُنْتَقِبَةٌ، فَقَالَتْ: إِنْ أُرْزَأَ
ابْنِي فَلَنْ أُرْزَأَ حَيَائِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " ابْنُكِ لَهُ أَجْرُ شَهِيدَيْنِ
" قَالَتْ: وَلِمَ ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " لِأَنَّهُ
قَتَلَهُ أَهْلُ الْكِتَابِ (سنن
أبي داود: 2488)
حضرت قیس بن شماس رضی اللہ تعالیٰ
عنہ روایت فرماتے ہیں کہ ایک خاتون جن کو اُم خلاد کہا جاتا تھا، حضور اقدس ﷺ کی
خدمت میں اس طرح حاضر ہوئیں کہ ان کے چہرے پر نقاب تھا اور آکر اپنے مقتول بیٹے
کے بارے میں حضور اقدس ﷺ سے سوال کرنے لگیں۔ حضور اقدس ﷺ کے صحابہؓ میں سے کسی
صحابی نے ان خاتون سے کہا کہ تم اپنے مقتول بیٹے کے بارے میں پوچھنے آئی ہو، اس
کے باوجود تم نے اپنے چہرے پر نقاب ڈالا ہوا ہے؟ ان خاتون نے جواب دیا کہ اگر میرے
بیٹے پر مصیبت آئی ہے تو میری حیاء پر تو مصیبت نہیں آئی۔ اس کے بعد حضور اقدس ﷺ
نے فرمایا کہ اس کو دو شہیدوں کا اجر ملے گا، ان خاتون نے پھر سوال کیا کہ یا رسول
اللہ ﷺ ! ایسا کیوں ہے؟ جواب میں حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ اس لئے کہ اس کو اہل
کتاب نے قتل کیا ہے۔
۳۔ عورت کسی
ضرورت کی وجہ سے گھر سے باہر نکلے تو پردہ میں نکلے:
{يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِيُّ قُل لِّأَزۡوَٰجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ يُدۡنِينَ عَلَيۡهِنَّ مِن جَلَٰبِيبِهِنَّۚ ذَٰلِكَ أَدۡنَىٰٓ أَن يُعۡرَفۡنَ فَلَا يُؤۡذَيۡنَۗ وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورٗا رَّحِيمٗا} الأحزاب: ٥٩
اے نبی! تم اپنی بیویوں، اپنی
بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادریں اپنے (منہ کے) اُوپر
جھکا لیا کریں۔ اس طریقے میں اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی، تو
ان کو ستایا نہیں جائے گا اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں علامہ ابن
کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ اللہ
تعالیٰ نے مؤمنین کی عورتوں کو یہ حکم فرمایا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت سے اپنے گھروں
سے باہر نکلیں تو چادروں کے ذریعہ اپنے چہروں کو اپنے سروں کے اوپر سے ڈھانپ لیں
اور صرف ایک آنکھ کھولیں۔ (تفسیر ابن کثیر)
فقالت يا رسول الله ﷺ: أَعَلَى إِحْدَانَا بَأْسٌ إِذَا لَمْ يَكُنْ لَهَا جِلْبَابٌ
أَنْ لَا تَخْرُجَ؟ قَالَ: لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا،
وَلْتَشْهَد الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ (صحيح البخاري: 980)
حضرت حفصہ بنت سیرین رضی اللہ
تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ کسی صحابیہ نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ ! اگر ہم میں سے
کسی کے پاس چادر نہ ہو تو کیا اس پر گناہ ہے اگر وہ (عید کے موقعہ پر عید گاہ کی
طرف) نہ نکلے، آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا کہ اس کی سہیلی اپنی چادر اس کو پہنا دے
اس کو چاہئے کہ ثواب کے کاموں میں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہو۔
۴۔ غیر محرم
مردوں کے سامنے کام کاج کے دوران چہرہ، ہتھیلی وغیرہ بے اختیار کھل جائے یا کسی ضرورت کی وجہ سے کھولنا
پڑے تو اس کی گنجائش ہے:
{وَقُل لِّلۡمُؤۡمِنَٰتِ يَغۡضُضۡنَ مِنۡ أَبۡصَٰرِهِنَّ وَيَحۡفَظۡنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبۡدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنۡهَاۖ وَلۡيَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّۖ } النور: ٣١
اور مؤمن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ
اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنی سجاوٹ کو کسی
پر ظاہر نہ کریں، سوائے اُس کے جو خود ہی ظاہر ہو جائے، اور اپنی اوڑھنیوں کے
آنچل اپنے گریبانوں پر ڈال لیا کریں۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِي
بَكْرٍ دَخَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَعَلَيْهَا ثِيَابٌ رِقَاقٌ، فَأَعْرَضَ
عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَقَالَ: " يَا أَسْمَاءُ إِنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا بَلَغَتِ الْمَحِيضَ لَمْ
تَصْلُحْ أَنْ يُرَى مِنْهَا إِلَّا هَذَا وَهَذَا، وَأَشَارَ إِلَى وَجْهِهِ
وَكَفَّيْهِ (سنن أبي داود:
4104)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور اقدس ﷺ کے پاس اس طرح آئیں کہ
ان کے اوپر باریک کپڑے تھے، حضور اقدس ﷺ نے ان سے اعراض فرمایا اور ان سے مخاطب ہو
کر فرمایا کہ اے اسماء ! جب عورت بالغ ہو جائے تو یہ مناسب نہیں کہ اس کے جسم کا
کوئی حصہ نظر آئے سوائے اِس کے اور اِس کے اور آپ ﷺ نے چہرے اور ہتھیلیوں کی طرف
اشارہ فرمایا۔
۵۔ عورت کسی
ضرورت کی وجہ سے غیر محرم مردوں کے سامنے
جائے یا بات کرے تو بے تکلفی یا نزاکت اختیار
نہ کرے:
{وَقُل لِّلۡمُؤۡمِنَٰتِ يَغۡضُضۡنَ مِنۡ أَبۡصَٰرِهِنَّ وَيَحۡفَظۡنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبۡدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنۡهَاۖ وَلۡيَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّۖ } النور: ٣١
اور مؤمن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ
اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنی سجاوٹ کو کسی
پر ظاہر نہ کریں، سوائے اُس کے جو خود ہی ظاہر ہو جائے، اور اپنی اوڑھنیوں کے
آنچل اپنے گریبانوں پر ڈال لیا کریں۔
{وَلَا يَضۡرِبۡنَ بِأَرۡجُلِهِنَّ لِيُعۡلَمَ مَا يُخۡفِينَ مِن زِينَتِهِنَّۚ } النور: ٣١
اور مسلمان عورتوں کو چاہئے کہ وہ
اپنے پاؤ زمین پر اس طرح نہ ماریں کہ اُنہوں نے جو زینت چھپا رکھی ہے، وہ معلوم ہو
جائے۔
{يَٰنِسَآءَ ٱلنَّبِيِّ لَسۡتُنَّ كَأَحَدٖ مِّنَ ٱلنِّسَآءِ إِنِ ٱتَّقَيۡتُنَّۚ فَلَا تَخۡضَعۡنَ بِٱلۡقَوۡلِ فَيَطۡمَعَ ٱلَّذِي فِي قَلۡبِهِۦ مَرَضٞ وَقُلۡنَ قَوۡلٗا مَّعۡرُوفٗا} الأحزاب: ٣٢
اے نبی کی بیویو! اگر تم تقویٰ
اختیار کرو تو تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ لہذا تم نزاکت کے ساتھ بات مت کیا
کرو، کبھی کوئی ایسا شخص بیجا لالچ کرنے لگے جس کے دل میں روگ ہوتا ہے، اور بات وہ
کہو جو بھلائی والی(یعنی پھیکے انداز میں) ہو۔
عَنْ مَيْمُونَةَ بِنْتِ سَعْدٍ وَكَانَتْ خَادِمًا لِلنَّبِيِّ ﷺ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : مَثَلُ الرَّافِلَةِ فِي الزِّينَةِ فِي
غَيْرِ أَهْلِهَا كَمَثَلِ ظُلْمَةِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا نُورَ لَهَا. قال أبو
عيسى: هذا حديث لا نعرفه إلا من حديث موسى بن عبيدة، وموسى بن عبيدة يضعف في
الحديث من قبل حفظه وهو صدوق (سنن
الترمذي: 1167)
نبی ﷺ کی خادمہ حضرت میمونہ بنت
سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنے گھر والوں کے علاوہ غیروں کے سامنے بناؤ سنگار کر کے
اترا کر چلنے والی عورت کی مثال قیامت کے دن کی تاریکی کی طرح ہے، اس کے پاس کوئی
نور نہیں ہو گا۔
فقط۔[i] واللہ
اعلم بالصواب
شمس تبریز
[i]
مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں مقالہ ’پردہ اور اسکی شرعی حدود‘ از حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
ترجمہ آیات قرآنی
ماخوذ از توضیح القرآن بتغیر یسیر
No comments:
Post a Comment