Featured Post

بداية المتعلم: کلمے، دعائیں، وضو، غسل اور نماز

  Click here to read/download (PDF) بسم الله الرحمن الرحيم اسلام کے کلمے کلمۂ طیبہ لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُو ْ لُ ال...

Friday, November 16, 2018

سیرت سید وُلدِ آدم نبی کریم ﷺ ۔ مولانا عبد الشکور فاروقی لکھنویؒ






بسم اللہ الرحمن الرحیم

سیرت سید وُلدِ آدم نبی کریم ﷺ
ولادتِ مبارکہ
آپ ؐ شہر مکہ میں سردارِ قریش حضرت عبد المطلب کے گھر میں پیدا ہوئے، آپ ؐ کے والد ماجد کا نام نامی عبد اللہ اور والدۂ محترمہ کا اسم گرامی آمنہ تھا۔ آپ کی ولادت سراپا بشارت ربیع الاول کے مہینہ میں دو شنبہ کے دن صبح صادق کے وقت آٹھویں یا بارھویں تاریخ کو ہوئی، انگریزی تاریخ ٢٠؍ اپریل ۵۷۱ء بیان کی گئی ہے، اس وقت ایران میں نوشیروانِ عادل کی حکومت تھی۔
  عجائبات کا ظہور
آپ ؐ کی ولادتِ بابرکت کے وقت بہت سے عجائبات قدرت کا ایسا ظہور ہوا کہ کبھی دنیا میں وہ باتیں نہیں ہوئیں، بے زبان جانوروں   نے انسانی زبان میں آپ ؐ کے تشریف لانے کی خوشخبری سنائی، درختوں سے آوازیں آئیں، بُت پرستوں نے بتوں سے آپ کی آمد کی خوش خبری سنی، دنیا کے دو بڑے بادشاہوں یعنی شاہ فارس اور شاہ روم کو بذریعہ خواب آپ ؐ کی عظمت ورفعت سے آگاہی دی گئی اور یہ بھی ان کو بتایا گیا کہ آپ ؐ کی سطوت وجبروت کے سامنے نہ صرف کسریٰ اور قیصر بلکہ ساری دنیا کی شوکتیں سرنگوں ہو جائیں گی۔ آپ ؐ شکم مادر ہی میں تھے کہ آپ ؐ کے والد ماجد کا انتقال ہو گیا اور چار برس کی عمر میں مادرِ مہربان کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ کسی سے آپ ؐ نے پڑھنا لکھنا کچھ نہیں سیکھا، نہ کسی سے کوئی چیز یا کوئی کمال حاصل کیا حتی کہ شعر و سخن جس کا عرب میں بہت رواج تھا اس کی بھی مشق آپ نے کسی سے نہیں کی۔
نگارِ من کہ بہ مکتب نہ رفت وخط نہ نوشت       بہ غمزہ مسألہ آموز صد مدرّس شد

Friday, November 2, 2018

سنن و نوافل - چہل حدیث

Click here to read/download in PDF (Page Size - A5)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سنن و نوافل

1.     حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص میرے ولی کو ایذاء پہنچاتا ہے تو میں اس کے ساتھ اپنی لڑائی کا اعلان کرتا ہوں اور میرا کوئی بندہ ٔ مومن میرا تقرب (اعمال میں سے) ایسی کسی چیز کے ذریعہ حاصل نہیں کرتا جو میرے نزدیک ہو جیسے ادائیگی فرضیہ کے ذریعہ میرا تقرب حاصل ہے۔ میرا بندہ ہمیشہ نوافل کے ذریعہ میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اسے اپنا دوست بنا لیتا ہوں۔ اور جب میں اسے اپنا دوست بنا لیتا ہوں تو میں اس کی سماعت بن جاتا ہوں کہ وہ اسی کے ذریعہ سنتا ہے میں اس کی بینائی بن جاتا ہوں وہ اسی کے ذریعہ دیکھتا ہے میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں کہ وہ اسی کے ذریعہ پکڑتا ہے میں اس کا پاؤں بن جاتا ہوں کہ وہ اسی کے ذریعہ چلتا ہے اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور وہ برائیوں اور مکروہات سے میری پناہ چاہتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں اور جس کام کو میں کرنے والا ہوں اس میں اس طرح تردد نہیں کرتا جس طرح کہ میں بندہ مومن کی جان قبض کرنے میں تردد کرتا ہوں کیونکہ وہ موت کو پسند نہیں کرتا حالانکہ اس کی نا پسندیدگی کو میں ناپسند کرتا ہوں اور موت سے کسی حال میں مفر نہیں ہے۔                       [صحیح بخاری: ۶۵۰۲]