Featured Post

بداية المتعلم: کلمے، دعائیں، وضو، غسل اور نماز

  Click here to read/download (PDF) بسم الله الرحمن الرحيم اسلام کے کلمے کلمۂ طیبہ لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُو ْ لُ ال...

Monday, November 13, 2017

تذکرہ: حضرت مولانا اسرار احمد قاسمی رحمۃ اللہ علیہ

بسم الله الرحمن الرحيم

حضرت مولانا اسرار احمد قاسمی رحمۃ اللہ علیہ

غالبا سنہ۱۹۹۴ء کی بات  ہے حضرت مولانا ؒ جمعہ کے بیان کے لئے مسجد کے اپنے حجرے میں  تیار ہو رہے تھے آپ کی طبعیت کافی ناساز تھی تبھی آپ پر غشی طاری ہوئی اور کچھ دیر آپ بے ہوش پڑے رہے جب افاقہ ہوا تو پھر  جمعہ کے لئے تشریف لے جانے لگے، آپ کے بڑے صاحب زادے مولانا محمد جنیدصاحب نے نہ جانے کا مشورہ دیا تو آپ نے فرمایا کہ جب میں طالب علم تھا تو میں نے اللہ تعالی سے یہ عہد کیا تھا کہ اے اللہ تو مجھے علم دین سے نواز ، میں ہمیشہ دین کی خدمت میں لگا رہونگا سو مجھے اپنا وہ عہد اب بھی یاد ہے چنانچہ آپ  اسی حالت میں تشریف لے گئے اور اپنے معمول کے مطابق قریب گھنٹہ بھر تقریر فرمائی۔ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ نے اپنے اس عہد کو آخر وقت تک نبھایا۔


حضرت مولانا ؒ کی ولادت چندوسی ضلع مرادآباد (اب سنبھل)  میں قریب سنہ ۱۹۴۰ء میں  ہوئی۔ آپ کل چار بھائی تھے دو آپ سے بڑے اور ایک بھائی آپ سے چھوٹے۔ آپ کے والد حافظ عبد الرحمن صاحبؒ  ضلع بلند شہرکی تحصیل انوپ شہر میں واقع ایک گاؤں ملک پور کے رہنے والے تھے اورایک سادہ مزاج نیک صفت انسان تھے اور آپ  کی والدہ بھی نہایت متقی پرہیزگار عورت تھی،  گھر پر محلہ کی بچیوں کو قرآن کریم اور امور خانہ داری کی تعلیم دیتیں۔ گاؤں میں تعلیم وتربیت کے فقدان کی وجہ سے  آپ کی والدہ محترمہ  شروع سے ہی اپنے بچوں کے ساتھ  چندوسی اپنے وطن  میں رہیں چنانچہ بڑی محنت و مشقت کے بعد دونوں نے ایک مکان چندوسی میں لیا ،جس کے خریدنے میں  زیادہ تر کوشش آپ کی والدہ کی ہی رہی۔ ا یک مرتبہ   ملک پور میں خاندان  کے کچھ افراد سے کچھ تنازع ہوا  تو حضرت حافظ صاحبؒ  اپنا گاؤں کا گھر زمین وغیرہ سب کچھ چھوڑ کر بمبئی چلے آئے۔ بمبئی آکر آپ بطور امام دکھنی (چٹنی) محلہ مسجد مقرر ہو گئے اور ساری زندگی اسی  مسجد  کی خدمت میں گزار دی۔ آپ کے بمبئی آنے کا واقعہ تقسیم ہند سے بھی کئی سال قبل کا ہے لیکن اتنے طویل عرصہ میں آپ نے کبھی ایک چھوٹا سا مکان بھی یہاں اپنے لیے نہیں بنایا  اور ساری زندگی مسجد ہی میں رہے۔

حضرت مولانا ؒ نے  اپنے  وطن  چندوسی میں قرآن کریم  پڑھنا شروع کر دیا تھا پھر قریب سنہ ۱۹۴۶ء میں بمبئی تشریف لے آئے اور  حفظ اپنے والد صاحب کے پاس   پورا کیا۔ بہت  کم عمر میں  ہی آپ حافظ قرآن ہو گئے۔ آپ نے سب سے پہلی محراب  بمبئی میں والد صاحب کی مسجد ہی میں سنائی پھر اسکے بعد  بمبئی سے قریب اُرن ، شولاپور، سہارنپور دیگر مقامات بھی تراویح سنانے تشریف لے جاتے  ۔قرآن کریم مسلسل تلاوت فرماتے دیکھ کر بھی اور بے دیکھے بھی۔ جب آپ نے سہارنپور تراویح سنائی تو لوگوں نے بڑا سراہا اسکے بعد ہی آپ نے عالم دین بننے کا ارادہ کر لیا۔ آپ کے والد صاحب کی رائے آپ کے حفظ کے بعد کوئی ہنر سکھانے کی تھی مگر حضرت مولانا ؒ نے آگے پڑھنے کا شوق ظاہر کیا تو والد صاحب نے جب اپنے بیٹے کا شوق اور اصرار دیکھا تو اپنی رائے سے رجوع کر لیا۔   چنانچہ آپ نے بمبئی ہی میں واقع مدرسہ امدادیہ میں درجہ عربی میں داخلہ لیا ۔ آپ کی بعض یاد داشت سے پتا چلتا ہے کہ آپ   مدرسہ امدادیہ بمبئی میں سنہ ۱۹۵۵ء کے دوران زیر تعلیم تھے۔

اللہ کے فضل سے آپ بچپن سے ہی بہت ذہین  تھے،  ایک مرتبہ کسی جگہ آپ تراویح سنانے گئے اس زمانے میں  آپ  کم سن تھے، ایک شخص  نے یہ اعتراض  کیا کہ آپ نے سبز رنگ کا تہ بند باندھ رکھا ہے جو کہ گنبد روضہ اطہر  کا رنگ ہے لہذا آپ نے  روضہ اطہر کی بے حرمتی کی تو  آپ نے  برجستہ اس شخص کو جواب دیا کہ اس لحاظ سے تو آپ نے خانہ کعبہ کی بے حرمتی کی کہ آپ سیاہ رنگ کے جوتے پہنے ہوئے ہو۔  آپ کے اس جواب پر وہ شخص سب کے سامنے  خاموش رہ گیا۔

مدرسہ امدایہ بمبئی میں ابتدائی تعلیم کے بعد آپ مدرسہ جامع العلوم کانپور تشریف لے گئےاور وہاں سے  ندوۃ العلماء لکھنؤ، میرٹھ، مظاہر العلوم سہارنپور غرض یہ کہ مختلف مدارس میں آپ نے تعلیم حاصل کی اور آخر کار دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے  اور  سنہ ۱۳۸۱ھ میں دار العلوم سے فراغت حاصل کی نیز  حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ اور حضرت مفتی مہدی حسن شاہجانپوریؒ مفتی دار العلوم دیوبند سے بھی تمام روایات کی اجازت حاصل کی۔ علم دین حاصل کرنے کا آپکو ایسا شوق تھا جہاں جس مدرسہ میں کسی  عالم دین کی شہرت سنتے توآپ حصول علم کے لئے وہیں تشریف لے جاتے۔ یہاں تک کہ کسی جگہ  فقہ جعفری کی  بھی تعلیم حاصل کی ۔ کتابوں سے آپ کو بہت شغف تھا ، ایک کتاب کئی کئی مرتبہ مطالعہ کرتے دن ہو یا رات سفر ہو یا حضر آپ ہمہ وقت مطالعہ میں مشغول رہتے یہاں تک کہ انتہائی ضعف کے عالم میں بھی اپنے  آخری ایام میں معلم الحجاج اور مولانا اسیر ادروی صاحب کی کتاب فن اسماء الرجال آپکے زیر مطالعہ تھی۔ آپ کے پاس کتابوں کا اچھا خاصہ ذخیرہ تھا جو کسی چھوٹے کتب خانہ سے کم نہیں تھا چنانچہ بمبئی میں اہل علم حضرات کے یہاں آپ کے کتب خانہ کا چرچہ تھا۔  آپ علم ظاہر کے ساتھ ساتھ اصلاح باطن کے حصول کے لیے بھی  کوشاں رہے چنانچہ آپ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی ؒ  سے بیعت  ہوئے نیز حضرت شیخ الحدیثؒ کے علاوہ   آپکا اصلاحی تعلق حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ سے بھی تھا۔

مدرسہ کی تعلیم سے فراغت کے بعد آپ اپنے والد بزرگوار کے پاس بمبئی تشریف لے آئے اور مدرسہ رحمانیہ بمبئی میں تدریسی خدمات انجام دینے لگے۔  پھر چند سالوں کے بعد آپ اپنے  والد صاحب  کی مسجد سے وابستہ ہو کر  وعظ ونصیحت اور  ان ہی کے ساتھ امامت کے فرائض ادا کرنے لگے جو کہ تا عمر آپکا یہی مشغلہ رہا۔ جمعہ کے دن آپ کا بیان گھنٹہ بھر سے کم کا نہیں ہوتا اور سننے والے اذان سے پہلے ہی مسجد پہنچ جاتے اور ہمہ تن آپ کا بیان سماعت فرماتے۔  جمعہ کے علاوہ بھی دیگر ایام میں آپ  تفسیر اور حدیث کا عوام کو درس  دیا کرتے۔آپ دوران طالب علمی ہی سے جمعیۃ علماء ہند سے وابستہ تھے چنانچہ بمبئی میں بھی آپ جمعیت کے اہم رکن رہے یہاں تک کے آپ کو  جمعیۃ علماء ہند صوبہ مہاراشٹر کا نائب صدر منتخب کر لیا گیا اور امارت شرعیہ مہاراشٹر کے لیے بھی بطور قاضی آپکو منتخب کر لیا گیا۔ آپ کے زیر انتظام امارت شرعیہ سے کئی فیصلہ صادر کئے گئے پھر آپ نے مرکزی محکمۂ شرعیہ کے نام سے ایک الگ ادارہ کی بنیاد رکھی جس میں آپکے ہاتھوں قضا اور افتاء سے متعلق ۶۰۰ سے زائد معاملات حل کئے گئے۔ آپ علماء کونسل  بمبئی کے جنرل سیکرٹیری بھی رہے جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء  یک جا تھے۔ آپ اپنے فرائض بخوبی انجام دیتے  اسی لئے آپ سے ہر مکتب فکر کے علماءعقیدت و محبت سے پیش آتے۔

سنہ۱۹۶۲ء میں آپ نے ایک ادارہ مدرسہ رشیدیہ کے نام سے  ملک پور میں قائم کیا جس کی بنیاد آپ کے والد صاحب کے ہاتوں رکھی گئی ،جس میں الحمد اللہ اب بھی تعلیم کا سلسلہ جاری ہے اور ایک ادارہ مدرسہ فیض عام کے نام سے چندوسی میں بھی قائم کیا ۔ آپ جب بھی چندوسی تشریف لاتے تو یہاں بھی اپنے دینی فرائض بخوبی انجام دیتے لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے، انہیں دینی مسائل  سکھلاتے  غرض یہ کہ  انکی اصلاح کی پوری فکر آپ کو رہتی۔ اللہ تعالی نے آپ کے ذریعہ بہت سے لوگوں کو ہدایت بخشی، آج بھی ایسے کئی آدمی ہیں جو اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہماری زندگیوں میں اور گھروں میں دینی ماحول حضرت مولاناؒ کی برکت ہے۔ اور کتنے ہی ایسے افراد ہیں جنہوں نے حضرت مولانا ؒ سے متاثر ہوکر اپنی اولاد کو عالم دین بنایا۔ حضرت مولاناؒ نے ’اسلام کا نظام روحانیت‘ کے نام سے ایک رسالہ تالیف کیا جس میں روزہ سے متعلق مسائل بیان کئے۔ایک مختصر کتاب ’ہمارے اسلاف اور انکے اقوال‘ بھی تصنیف دی اور بابری مسجد کی شہادت سے متعلق ایک کتاب ’بابری مسجد ایودھیا اور مسلمان‘  لکھی اور سنہ۹۳۔ ۱۹۹۲ء کے بمبئی فسادات سے متعلق بھی  ایک کتاب ’خون کے آنسو ں‘ تالیف کی۔ انکے علاوہ مختلف موضوعات پر وقتا فوقتا  کچھ مضامین اور رسائل  بھی شائع کئے۔ ۹۳۔ ۱۹۹۲ء بمبئی فسادات متاثرین اور ٹاڈا میں پھنسے مظلومین کی امداد و رہائی کے لئے آپکی مسلسل جد و جہد بھی رہی۔

آپ نے کم و بیش گیارہ حج کئے جس میں سب سے پہلا حج دار العلوم سے فراغت کے فورا  بعد ادا کیا اور آخری حج سنہ ۱۹۹۸ء میں ادا کیا۔  سنہ ۱۹۹۸ء میں ابتداءً آپ کا حج کا ارادہ نہ تھا لیکن اچانک آپ نے ارادہ کر لیا اور بظاہر کوئی سبب نہ ہونے کے باوجود اللہ تعالی نے آپ کے لئے سامان سفر کے اسباب پیدا کردیئے اور انتہائی ضعف اور بیماری کی حالت میں آپ حج کے لئے تشریف لے گئے۔ بعد ادائے حج مدینہ منورہ میں   طبعیت بگڑ گئی اور آپ کو شاہ فہد ہسپتال مدینہ منورہ میں بغرض علاج داخل کر دیا گیا۔ دوران علاج آپ کوما میں چلے گئے اور گیارہ دن کوما میں رہنے کے بعد شب بارہ بجے۲۴؍ ذی الحجہ ۱۴۱۸ھ م۲۱؍ اپریل ۱۹۹۸ء کو آپ کا وصال ہو گیا۔ آپ کی نماز جنازہ مسجد نبوی میں ادا کی  گئی اور آپ کی تدفین جنت البقیع میں واقع ہوئی  ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ فقط

شمس تبریز

No comments:

Post a Comment