حضرت مولانا الحاج محمد عاشق الہٰی صاحب میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ:
پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان امت پر دو طرح کے ہیں ایک یعلمھم الکتاب کہ وہ راستہ بتاتے اور طریقِ نجات سکھاتے تھے دوم یزکیھم کہ پاس بٹھا کر قلب میں ایک نور ڈالتے اورعمل کا ایک شوق جس کو دلچسپی کہنا چاہئے پیدا کرتے تھے کہ عمل کے لئے محرک بن کر حاضر وغائب بحالتِ عسر ویسر ہر صورت میں بندۂ خدا اور مستقیم الحال بنائے رکھے۔
دنیا اور دنیا کی ہر چیز انسان کے لئے بنائی گئی ہے کہ ایک چیز بھی نہ ہو تو کسی نہ کسی انسانی ضرورت میں حرج ضرور واقع ہو جائے گا، مگر انسان دنیا کی کسی چیز کے لئے بھی نہیں بنایا گیا کہ انسان معدوم ہو جائے تو کسی چیز کا کوئی بھی حرج و نقصان نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح اصطبل اور گھاس دانہ کا تمامی سامان گھوڑے کے لئے ہے مگر گھوڑا صرف آقا کی سواری کے لئے اسی طرح تمامی کائنات زمین وآسمان شجر وحجر، نباتات وجمادات سب انسان کی راحت کے لئے ہے اور انسان محض اپنے خالق بر تر کی غلامی وعبادت کے لئے، مگر عبادت کے لئے ضرورت ہے دو چیز کی، ایک طریقِ عبادت سے واقفیت جس کا نام علمِ دین ہے۔ دوم عبادت سے دلچسپی اور شوق ورغبت جس کا نام تزکیۂ باطن اور عشق ومحبت ہے۔ پس اول کا حصول بواسطۂ درس وتدریس مدارسِ علمیہ میں ہوگا اور شریعت نام رکھا جائے گا، دوسرے کی تحصیل اہل اللہ کی جوتیاں اٹھانے سے خانقاہوں میں ہوگی جس کو طریقت کہا جائے گا اور وہی شریعت کی روح اور مغز اور اصل الاصول ہے کہ اس کے بغیر یا باوجود علم کے عمل ہی نہ ہو سکے گا یا ہوگا تو بار آور ومثمر نہ ہوگا اور بار آور بھی ہوا تو بے مزہ اور عارضی وناپائدار ہوگا جس کا خلاصہ یہ ہوا کہ علم بلکہ انسانی زندگی کا مقصود اعظم یہی تعلق مع اللہ ہے جو محرک ہوتا ہے علم پر عمل کا اور احکم الحاکمین کی طاعت وعبادت کا۔
(اقتباس از تذکرۃ الخلیل، ص۶۹۔۷۱)
No comments:
Post a Comment