Featured Post

بداية المتعلم: کلمے، دعائیں، وضو، غسل اور نماز

  Click here to read/download (PDF) بسم الله الرحمن الرحيم اسلام کے کلمے کلمۂ طیبہ لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُو ْ لُ ال...

Sunday, March 30, 2014

ایک ایمان افروز واقعہ

بقلم مبارک حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا سہارنپوری رحمہ اللہ

حضرت سعید بن المسیبؒ مشہور تابعی ہیں، بڑے محدثین میں شمار ہیں، ان کی خدمت میں ایک شخص عبد اللہ بن ابی وداعہؒ کثرت سے حاضر ہوا کرتے تھے، ایک مرتبہ چند روز حاضر نہ ہوسکے کئی روز کے بعد جب حاضر ہوئے تو حضرت سعید نے دریافت فرمایا کہاں تھے، عرض کیا کہ میری بیوی کا انتقال ہو گیا ہے اس کی وجہ سے مشاغل میں پھنسا رہا، فرمایا کہ ہم کو خبر نہ کی ہم بھی جنازہ میں شریک ہوتے، تھوڑی دیر کے بعد میں اٹھ کر آنے لگا، فرمایا دوسرا نکاح کر لیا؟ میں نے عرض کیا، حضرت مجھ سے کون نکاح کردے گا، دو تین آنے کی میری حیثیت ہے، آپ نے فرمایا  ہم کردیں گے، اور یہ کہہ کر خطبہ بڑھا اور اپنی بیٹی کا نکاح نہایت معمولی مہر آٹھ دس آنے پر مجھ سے کر دیا (اتنی مقدار مہر کی ان کے نزدیک جائز ہوگی، جیسا کہ بعض اماموں کا مذہب ہے، حنفیہ کے نزدیک ڈھائی روپئے سے کم جائز نہیں)


نکاح کے بعد میں اٹھا اور اللہ ہی کو معلوم ہے کہ مجھے کس قدر مسرت تھی، خوشی میں سوچ رہا تھا کہ رخصتی کے انتظام کے لئے کس سے قرض مانگوں، کیا کروں، اسی فکر میں شام ہوگئی، میرا روزہ تھا، مغرب کے وقت روزہ افطار کیا نماز کے بعد گھر آیا چراغ جلایا روٹی اور زیتون کا تیل موجود تھا اس کو کھانے لگا کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا میں نے پوچھا کون ہے؟ کہا سعید ہے، میں سوچنے لگا کہ کون سعید ہے، حضرت کی طرف میرا خیال بھی نہیں گیا کہ چالیس برس سے اپنے گھر یا مسجد کے سوا کہیں آنا جانا تھا ہی نہیں، باہر آکر دیکھا کہ سعید بن المسیبؒ ہیں میں نے عرض کیا آپ نے مجھے نہ بلالیا، فرمایا میرا ہی آنا مناسب تھا، میں نے عرض کیا کیا ارشاد ہے؟ فرمایا مجھے یہ خیال آیا کہ اب تمہارا نکاح ہو چکا ہے، تنہا رات کو سونا مناسب نہیں، اس لئے تمہاری بیوی کو لایا ہوں، یہ فرما کر اپنی لڑکی کو دروازے کے اندر کر دیا اور دروازہ بند کرکے چلے گئے، وہ لڑکی شرم کی وجہ سے گر گئی میں نے اندر سے کواڑ بند کئے اور وہ روٹی اور تیل جو چراغ کے سامنے رکھا تھا، وہاں سے ہٹا دیا کہ اس کی نظر نہ پڑے اور مکان کی چھت پر چڑھ کر پڑوسیوں کو آواز دی، لوگ جمع ہوگئے تو میں نے کہا کہ حضرت سعید ؒ نے اپنی لڑکی سے میرا نکاح کر دیا ہے، اور اس وقت وہ خود ہی اس کو پہونچا گئے ہیں، سب کو بڑا تعجب ہوا، کہنے لگے واقعی وہ تمہارے گھر میں ہے؟ میں نے کہا ہاں !

 اس کا چرچا ہوا میری والدہ کو خبر ہوئی وہ بھی اسی وقت آگئیں، اور کہنے لگیں کہ اگر تین دن تک تو نے اسے چھیڑا تو تیرا منھ نہ دیکھوں گی، ہم تین دن میں اس کی تیاری کر لیں، تین دن کے بعد جب میں اس لڑکی سے ملا، تو دیکھا نہایت خوبصورت قرآن شریف کی بھی حافظہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی زیادہ واقف، شوہر کے حقوق سے بھی زیادہ باخبر، ایک مہینہ تک نہ تو حضرت سعیدؒ میرے پاس آئے نہ میں ان کی خدمت میں گیا ایک ماہ کے بعد میں حاضر ہوا تو وہاں مجمع تھا، میں سلام کر کے بیٹھ گیا جب سب چلے گئے تو فرمایا اس آدمی کو کیسا پایا میں نے عرض کیا نہایت بہتر ہے کہ دوست دیکھ کر خوش ہوں دشمن جلیں، فرمایا اگر کوئی بات ناگوار ہو تو لکڑی سے خبر لینا، میں واپس آگیا، تو ایک آدمی کو بھیجا جو بیس ہزار درم (تقریبا پانچ ہزار روپیہ) مجھے دے گیا، اس لڑکی کو عبد الملک بن مروان بادشاہ نے اپنے پیٹے ولید کے لئے جو ولی عہد بھی تھا مانگا تھا، مگر حضرت سعید ؒ نے عذر کر دیا تھا، جس کی وجہ سے عبد الملک ناراض بھی ہوا، اور ایک حیلہ سے حضرت سعیدؒ کے سو کوڑے سخت سردی میں لگوائے اور پانی کا گھڑا بھی ان پر گروایا۔ 

(فضائل ذکر ص154 - 155 بحوالہ حیات حضرت شیخ الحدیث از مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ ص269 - 271)

No comments:

Post a Comment