*مولانا اشرف علی تھانویؒ ( وفات ۲۰ جولائی ۱۹۴۳ء)۔۔۔۔ تحریر علامہ سید سلیمان ندویؒ*
[بشکریہ علم وکتاب ٹیلیگرام چینل: https://telegram.me/ilmokitab]
داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے
یعنی حکیم امت، مجددِ طریقت، شیخ الکل حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے مرض ضعف و اسہال میں کئی ماہ علیل رہ کر ۱۹ اور ۲۰ جولائی کی درمیانی شب کو ۱۰ بجے نماز عشاء کے وقت اس دارفانی کو الوداع کہا، اور اپنے لاکھوں معتقدوں اور مریدوں اور مستفیدوں کو غمگین و مہجور چھوڑا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اب اس دور کا بالکلیہ خاتمہ ہوگیا جو حضرت شاہ امداد اللہ صاحب مہاجر مکی، مولانا یعقوب صاحب نانوتوی، مولانا قاسم صاحب نانوتوی، مولانا شیخ محمد صاحب تھانوی کی یادگار تھا، اور جس کی ذات میں حضرات چشت اور حضرت مجدد الف ثانی اور حضرت سید احمد بریلوی کی نسبتیں یکجا تھیں، جس کا سینہ چشتی ذوق و عشق اور مجددی سکون و محبت کا مجمع الجرین تھا، جس کی زبان شریعت و طریقت کی وحدت کی ترجمان تھی، جس کے قلم نے فقہ و تصوف کو ایک مدت کی ہنگامہ آرائی کے بعد باہم ہم آغوش کیا تھا اور جس کے فیض نے تقریباً نصف صدی تک اللہ تعالیٰ کے فضل و توفیق سے اپنی تعلیم و تربیت اور تزکیہ و ہدایت سے ایک عالم کو مستفید بنا رکھا تھا، اور جس نے اپنی تحریر و تقریر سے حقائق ایمانی، دقائق فقہی، اسرارِ احسانی اور رموزِ حکمتِ ربانی کو برملا فاش کیا تھا، اور اسی لئے دنیا نے اس کو حکیم الامت کہہ کر پکارا، اور حقیقت یہ ہے کہ اس اشرف زمانہ کے لئے یہ خطاب عین حقیقت تھا۔